• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتہا پسند مودی حکومت اڑی واقعہ کو بنیاد بنا کرایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی ہے، پٹھان کوٹ حملے کی طرز پہ اڑی میں جو ڈرامہ عکس بند کیا گیا اس کا ایک مقصد وزیراعظم پاکستان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کو سبو تاژ کرنا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں ننگی بھارتی جارحیت کو بارود کے دھوئیں میں ڈھانپا جا سکے جبکہ دوسرا اہم ہدف ایسا جنگی ماحول پیدا کرنا ہے جس میں خطے کو غیر مستحکم کر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے اس اہم ترین منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں جو بھارت اور اس کے سرپرستوں کے لئے ڈرائونا خواب بن چکا ہے۔ وطن عزیز کا دفاع کرنے والی مسلح افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف گجرات فسادات کے ماسٹر مائنڈ دہشت گرد کے انہی ناپاک عزائم کو عرصہ ہوا بھانپ چکے ہیں اسی لئے گلگت بلتستان میں سی پیک کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نام لے کر خبردار کیا کہ مودی ہو یا ’’ را ‘‘ وہ دشمن کی سب چالوں کو سمجھ چکے ہیں، اقتصادی راہداری منصوبے کی سیکورٹی کو ہر قیمت پہ یقینی بنایا جائے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ یوم دفاع کے موقع پر بھی آرمی چیف نے واضح کیا کہ سی پیک کا عظیم منصوبہ پاک چین دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانا مسلح افواج کا قومی فریضہ ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ سی پیک میں کسی بیرونی طاقت کو رکاوٹ نہیں ڈالنے دیں گے اور اس منصوبے کے خلاف کی جانے والی کسی بھی سازش سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ یہ امر اب روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہےکہ دنیا کے آٹھویں عجوبے سے تعبیر کئے جانے والے سی پیک کے خلاف سازشیں گزشتہ سال اسی وقت سے شروع ہو گئی تھیں جب چین کے صدر شی چن پنگ نے اسلام آباد میں 46 ارب ڈالر کے 51 معاہدوں پہ دستخط کئے تھے۔ مودی چینی قیادت کے سامنے سی پیک منصوبے کے بارے میں سخت تحفظات بھی ظاہر کر چکے ہیں لیکن چینی رہنمائوں نے انہیں سرے سے مسترد کر دیا۔ تب سے ہندو بنئے کے پیٹ میں مروڑ اتنی شدت سے اٹھ رہے ہیں کہ بد نام زمانہ ’’را‘‘ میں ایک خصوصی سیل قائم کرکے اسے ٹاسک ہی یہ دیا گیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر سی پیک منصوبے کو ناکام بنائے۔ مودی حکومت کی ان مذموم چالوں کا اعتراف بلوچستان سے بھارتی بحریہ کا گرفتار ہونے والا جاسوس کلبھوشن یادیو اپنے ویڈیو بیان میں بھی کر چکا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال میں کہ جب بھارت سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے اور مودی کا پاگل پن اس نہج پہ پہنچ چکا ہے کہ وہ جنگی ماحول پیدا کر کے سرجیکل اسٹرائیکس کے آپشنز تک پرغور کر رہا ہے، ہماری حکومت منصوبے کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ یہاں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ چین کے کردار کے باعث جہاں سی پیک کا منصوبہ امریکہ کو کھٹک رہا ہے وہیں بعض مسلم ممالک بھی مخصوص مفادات کی وجہ سے اس کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری سینیٹ کی دفاع اور خارجہ کمیٹی کے مشترکہ اجلاس میں خود بتا چکے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں حالیہ سرد مہری کی وجہ پاک چین مضبوط تعلقات اور سی پیک منصوبہ ہے۔ اوپر بیان کئے گئے حالات کے تناظر میں منصوبے کے خلاف سازشوں اور اسے نقصان پہنچانے کے لئے ممکنہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے سد باب کے لئے حکومت پاکستان نے گزشتہ سال میجر جنرل کی کمان میں اسپیشل سیکورٹی ڈویژن قائم کیا تھا۔ اس سیکورٹی ڈویژن میں آرمی کی 9 بٹالین اور سول آرمڈ فورسز کے 6ونگزشامل کئے گئے ہیں۔ ابتدائی طور پہ وفاقی حکومت کی طرف سے سیکورٹی ڈویژن کے قیام اور اس میں شامل 15 ہزار جوانوں کی تربیت کے لئے گزشتہ سال 10 ارب روپے فراہم کئے گئے تھے جبکہ وفاقی وزارت داخلہ کے رواں ماہ قومی اسمبلی اجلاس میں پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق سی پیک منصوبے کی سیکورٹی پر اب تک 21 ارب روپے سے زائد خرچ کئے جا چکے ہیں۔ سی پیک منصوبے کی سیکورٹی کی ضروریات بڑھنے کے باعث عسکری قیادت اسپیشل سیکورٹی ڈویژن سائوتھ بھی قائم کرنے کا اعلان کرچکی ہے جبکہ پہلے سے قائم سیکورٹی ڈویژن کو نارتھ کا نام دیا گیا ہے جو خنجراب سے راولپنڈی منصوبے کی سیکورٹی کی ذمہ داریاں ادا کرے گا۔ سائوتھ ڈویژن کے ذمہ راولپنڈی سے گوادر تک علاقہ ہوگا۔ ملک بھر میں اس وقت سی پیک کے تقریباً 330منصوبوں پر 8 ہزار 8 سو 19 چینی ماہرین اور ورکرز کام کر رہے ہیں جن کی سیکورٹی پہ 13 ہزار 7 سو سے زائد اہلکار تعینات ہیں۔ پنجاب میں سب سے زیادہ 176 منصوبوں پر 3 ہزار 7 سو 54 چینی کام کر رہے ہیں جن کی سیکورٹی پر6 ہزار 3 سو46 سیکورٹی اہلکارمامور ہیں۔ آرمی،رینجرز،ایف سی،لیویز،پولیس اور نجی شعبے سے لئے گئے یہ سیکورٹی اہلکار اسپیشل سیکورٹی ڈویژن کے جوانوں کی تعیناتی تک عارضی طور پر مامورکئے گئے تھے لیکن انتہائی تشویش ناک امر یہ ہے کہ اسپیشل سیکورٹی ڈویژن کے جوانوں کوتربیت مکمل کرنے کے باوجود اس لئے تعینات نہیں کیا جا سکا کیوں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مسلح افواج کے مطالبے پر انہیں پولیس کے اختیارات دینے پر تیار نہیں ہیں۔ سی پیک کی سیکورٹی کوقومی فریضہ قرار دینے والے اس اہم ’’معاملے ‘‘پربھی سیاست کرنے والوں کو ’’پیغام‘‘ دے چکے ہیں جس کے بعد یہ غور کیا جا رہا ہے کہ اسپیشل سیکورٹی ڈویژن کے اہلکاروں کو متعلقہ منصوبے کے علاقے میں صرف پولیس کے اختیارات دئیے جائیں یا یہ اختیارات متعلقہ تھانے کی حدود میں ہوں۔ سی پیک کو سیاسی مفادات اور اپنی حکومت کے لئے بطور فلیگ شپ منصوبہ استعمال کرنے کی کوشش کرنے والے اس سے قبل سی پیک اتھارٹی کی تجویز بھی رد کر چکے ہیں جبکہ سی پیک کے لئے مجوزہ بورڈ کی بجائے سروسز چیفس کو مائنس کر کے صرف سویلین قیادت پہ مشتمل اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ ایک طرف اسپیشل سیکورٹی ڈویژن کو درکاراختیارات نہیں دئیے جارہے تو دوسری طرف نمود ونمائش کے منصوبوں میں اربوں روپے جھونکنے والے پاکستان کی تقدیر بدلنے والے منصوبے کی سیکورٹی کے لئے فنڈزبھی فراہم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ منصوبے سے وابستہ اعلیٰ حکام سے پتہ چلا کہ وفاقی حکومت نے سی پیک کی سیکورٹی کے لئے بھی درکار تمام فنڈز چین سے حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم چین نے انکار کر دیا اور موقف اختیار کیا کہ وہ اس ضمن میں پہلے ہی کافی مدد کر چکا ہے۔ چین سے لال جھنڈی دکھائے جانے کے بعد اب یہ فنڈز عوام سے پورے کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کے لئے اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بجلی کے صارفین پہ اضافی ٹیکس عائد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسپیشل سیکورٹی ڈویژن کے اہلکاروں کی عدم تعیناتی اورسیکورٹی اخراجات کی مد میں کئے جانے والے مطالبات نے چینی حکومت کے لئے بھی تحفظات پیدا کر دئیے ہیں جس کا اندازہ چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے رواں ماہ شائع کئے جانے والے اداریے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اداریے میں کہا گیا ہے کہ چین کے لئے سی پیک کی سیکورٹی لاگت بڑھتی جا رہی ہے جو منصوبوں کی جلد تکمیل میں مسائل پیدا کر سکتی ہے جبکہ خطے کے ماحول کی وجہ سے پاکستان اور چین کے عوام کو کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اداریے میں چینی قیادت پہ زور دیا گیا ہے کہ وہ سی پیک کی صورت میں سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہ ڈالے بلکہ ون بیلٹ ون روٹ پالیسی کے تحت مشرقی ایشیائی ممالک سے بھی رجوع کرے۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں حکومت کو خود احتسابی کرنی چاہئے کہ پاک چین دوستی کے ثبوت سی پیک کے عظیم منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے دشمن کیا چالیں چل رہا ہے اوروہ کس ڈگر پہ چل رہی ہے۔ سویلین قیادت کو یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ سی پیک کے معاملے میں اگر سیاسی مفاد کو قومی مفاد پر مقدم رکھا گیا تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔


.
تازہ ترین