• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈینگی فیور نے پھر پنجاب میں زور پکڑنا شروع کردیا ہے۔ اس وقت راولپنڈی ڈویژن میں 40 کیس ہو چکے ہیں اور دو ہلاکتیں بھی ہو چکی ہیں۔ لاہور میں خصوصاً ڈیفنس کے علاقوں میں 45مزید کیس سامنے آچکے ہیں۔ اب تک مجموعی طور پر ساڑھے چار سو کے قریب ڈینگی کے کیس سامنے آچکے ہیں۔ پچھلے دنوں جب ڈینگی اسکواڈ نے ڈیفنس اور کینٹ کے علاقوں میں ڈینگی لاروے کو چیک کیا تو چار ہزار گھروں میں ڈینگی کا لاروا پایا گیا۔ اس وقت پورے ملک میں جس قسم کا حبس اور گرمی کا موسم چل رہا ہے، یہ موسم ڈینگی مچھر کی افزائش کے لئے بہترین ہے۔ حکومت کے لئے یہ ایک تشویش والی بات ہے کہ ڈینگی اپنے پنجے دوبارہ گاڑ رہا ہے۔ ڈینگی ایک جان لیوا مرض ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح حکومت نے پچھلے چند برسوں میں ڈینگی کو ختم کرنے کے لئے دن رات ایک کیے رکھے۔ اب بھی اس طرح بھرپور طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت ڈینگی کے خاتمے کے لئے کوشش تو کرتی ہے مگر عوام صفائی اور مچھروں کے خاتمے کے لئے کچھ نہیں کرتے مثلاً راولپنڈی میں جب ایک شہری کو کہا گیا کہ تمہارے گھر کے پانی میں ڈینگی والا لاروا آرہا ہے تو اس نے ناصرف محکمہ صحت کی ٹیم کا مذاق اڑایا بلکہ ان کے سامنے ڈینگی لاروے والے پانی کے دو کلاس بھی پی لیے۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے عوام اور ڈاکٹروں دونوں کو بروقت اس کی آگاہی دینے کے لئے کام شروع کردیا ہے۔ اس مرتبہ پی ایچ سی کے سربراہ ڈاکٹر محمد اجمل خان نے یہ ایک بہت اچھا کام کیا کہ انہوں نے جنرل پریکٹیشنر یعنی جی پی ڈاکٹروں کو ڈینگی میں مبتلا مریضوں کا علاج اور نگہداشت کے حوالے سے سیمیناروں کا ایک سلسلہ شروع کردیا ہے جس میں وہ ماہرین کو بلا کر جی پی ڈاکٹروں کو تربیت دے رہے ہیں ۔
ہمارے ملک میں علاج کی سہولتیں فراہم کرنے میں جی پی حضرات کا بڑا کردار ہے۔ یہ ڈاکٹرز ہر گلی، محلے اور کوچے میں مریضوں کو سستے علاج کی سہولتیں فراہم کررہے ہیں ایک عرصہ تک حکومتیں ان ڈاکٹروں کی خدمات سے بے خبر رہیں مگر موجودہ حکومت نے ان جی پی حضرات کی اہمیت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان کو مختلف امراض، وبائی اور پیچیدہ بیماریوں سے نمٹنے کے بارے میں تربیت کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ اس سلسلے میں پاکستان اکیڈمی آف فزیشنز کے تمام دھڑوںنے بھی حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
پاکستان کےتمام شہروں اور دیہات میں بیٹھے ہوئے یہ 80ہزار جی پی ہیلتھ سسٹم میں نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنرل پریکٹیشنر ز کو اعلیٰ تربیت کے لئے حکومت منتخب کرے۔ اس کے لئے کوئی طریقہ کار طے کرے اور ان جنرل پریکٹیشنرز کو بیرون ممالک میں مزید تعلیم اور اعلیٰ تربیت کے لئے بھیجا جائے۔
عزیز قارئین آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ دنیا میں سب سے بہترین ہیلتھ سسٹم کیوبا کا ہے۔ کیوبا اگرچہ ایک چھوٹا سا ملک ہے اس کے وسائل اور ذرائع آمدنی اس قدر نہیں جس قدر دنیا کے باقی ممالک کے ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ اپنے عوام کو بہترین ہیلتھ سسٹم فراہم کررہا ہے۔ اسی طرح ڈنمارک، ناروے اور سوئیڈن کا ہیلتھ سسٹم بھی بہت آئیڈیل ہے۔
پی ایچ سی پچھلے چار برس سے فیملی فزیشنز کی تربیت کے لئے مختلف کورسز اور ورکشاپس کرا رہی ہے اورآجکل ڈینگی فیور میں مبتلا مریضوں کاجدید خطوط پر علاج کے سلسلے میں سیمیناروں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جسے فیملی فزیشن تحسین کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ جی پی ڈاکٹرز میں خواتین ڈاکٹروں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ ہمارے خیال میں پاکستان اکیڈمی آف فیملی فزیشن کو اس سلسلے میں بھی کوئی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔
29ستمبر کو پوری دنیا میں ورلڈ ہارٹ ڈے منایا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں بھی لوگوں کو دل کی بیماریوں سے آگاہی دلانے کے لئے سیمینارز، واک اور مذاکرے ہورہے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں ہارٹ اٹیک/دل کی بیماریوں سے مرنے والوں کی شرح دیگر بیماریوں سے مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں بہت تیزی کے ساتھ دل کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال 35ہزار ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے دل میں سوراخ ہوتا ہے اور پورے ملک میں بچوں کے ہارٹ سرجنز کی تعداد انتہائی کم ہے۔ان بچوں کو دل کی سرجری کے لئے بہت لمبی تاریخیں دی جارہی ہیں۔
آپ کو صرف یہ بتا دیں کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں روزانہ ایمرجنسی میں آٹھ سو مریض آرہے ہیں۔اس وقت دل کے امراض میں صرف بڑی عمر کے افراد ہی مبتلا نہیں ہورہے بلکہ پندرہ/سولہ برس کے بچے بھی دل کی بیماریوں کے ساتھ آرہے ہیں۔ ہمارے ملک میں جس تیزی کے ساتھ فاسٹ فوڈز، برگرز، کولا، سگریٹ نوشی اور شراب نوشی کا رجحان بڑھ رہا ہے اس کی وجہ سے اب نوجوان بھی دل، شوگر اور بلڈپریشر کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ حکومت اسپتال بنانے پر زور دے رہی ہے لیکن صحت مند خوراک کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ آج ہر گلی، محلے میں انتہائی ناقص غذا مل رہی ہے۔ انتہائی گھٹیا اور مضر صحت پکانے کا تیل اور دودھ فروخت ہورہا ہے۔
پی آئی سی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ندیم حیات ملک کے بقول اگر لوگوں نے اپنی کھانے پینے کی عادات کو تبدیل نہ کیا تو پاکستان میں دل کے امراض صرف تین برسوں میں ڈبل ہو جائیں گے۔ ورزش برائے نام رہ گئی ہے جبکہ ڈنمارک میں ہر عورت، مرد سائیکل چلاتا ہوا نظر آئے گا اور ان کی صحت قابل رشک ہے۔ ہمارے ہاں سائیکل چلانے کو غربت کی نشانی کہا جاتا ہے۔ ڈنمارک میں لاکھوں افراد روزانہ سائیکلوں پر دفتر جاتے اور آتے ہیں۔چنانچہ حکومت کا فرض ہے کہ جہاں بڑے بڑے اشتہارات دیگر کارناموں پر شائع کرتی ہے وہاں پر دل کی بیماریوں کے بارے میں آگاہی دلانے کے لئے بھی اشتہارات شائع کرے۔ تعلیمی اداروں میں معلوماتی پروگرام منعقد کروائے۔
لیں جی! پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے پچھلے ہفتے پولیس دربار کر ڈالا۔ اس پولیس دربار میں وزیراعلیٰ نے بھرپور انداز میں پولیس فورس کی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کو سراہا۔ انہوں نے کائونٹر ٹیررازم فورس بنانے پر ہوم ڈیپارٹمنٹ اور آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ آئی جی نے یہ فورس قائم کر کے قابل ستائش قدم اٹھایا ہے۔
شہباز شریف نے اس پولیس دربار میں کانسٹیبل کا اسکیل 5 سے بڑھا کر 7، ہیڈکانسٹیبل کا اسکیل 7 سے بڑھا کر 9 اور اے ایس آئی کاا سکیل 9 سے بڑھا کر 11 کردیا ہے اور شہدا کے بچوں کے لئے 50 لاکھ روپے سے رقم بڑھا کر ایک کروڑ روپے کردی ہے۔کاش باقی صوبوں کے وزراء وزیراعلیٰ بھی اس قسم کے اقدامات کریں۔موجودہ آئی جی مشتاق سکھیرا نے پولیس فورس میں کئی تبدیلیاں کی ہیں اور پولیس فورس کو جدید خطوط پر ڈالا ہے۔ جب سے سی پیک اور دیگر منصوبے چین کی مدد سے شروع ہوئے ہیں تو اس وقت سے سینکڑوں چینی لاہور اور ملک کے دیگر شہروں میں موجود ہیں ان کی حفاظت کیلئے خصوصی اسکواڈ بنایا گیا ہے اور ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں باقاعدہ چائنیز پولیس چوکی بھی قائم کردی گئی ہے۔
پنجاب کے 714 تھانوں میں فرنٹ ڈیسک قائم کیا گیا ہے اب تھانوں میں ایف آئی آر کٹوانے کے لئے خوار نہیں ہونا پڑتا۔ وہاں پر کمپیوٹر پر تعلیم یافتہ خواتین و مرد فوری رپورٹ درج کر کے کمپیوٹرائزڈ نمبر دے دیتے ہیں۔ اس طرح پولیس نے اپنا شعبہ تعلقات عامہ کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا ہے۔ اب میڈیا والوں کو درست معلومات بروقت ملیں گی۔
ہمارے خیال میں پولیس اور عوام کے درمیان دوری اور فاصلوں کو مزید کم کرنے کے لئے حکومت کو آئے دن شہریوں کے ساتھ پولیس کے مذاکرے، سیمینارز اور مل بیٹھنے کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں۔


.
تازہ ترین