• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جینیاتی بیماری سے بچائو کیلئے 3؍ افراد کے ڈی این اے سے بچہ پیدا کرنے کا کامیاب تجربہ

نیویارک (جنگ نیوز) سائنسی تحقیق پر مبنی جریدے دی نیو سائنٹسٹ نے اپنی ایک نئی تحقیق میں بتایا ہے کہ تین افراد کے تولیدی مادے کے ذریعے دنیا کا پہلا بچہ پیدا کیا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق مائیٹوکونڈریل ڈونیشن تکنیک کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے میں اس کی ماں اور باپ کا عمومی ڈی این اے شامل ہے جبکہ اس میں ایک ڈونر شخص کے ڈی این اے کا انتہائی معمولی جینیٹک کوڈ شامل کیا گیا ہے۔ اس بچے کی عمر اب پانچ ماہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق، امریکی ڈاکٹروں کی جانب سے اس اقدام کا مقصد بچے کو اس بیماری سے بچانا تھا جو اس کی اردن سے تعلق رکھنے والی ماں کی جین میں موجود تھی۔ نیویارک کے نیو ہوپ فرٹیلیٹی سینٹر میں پیدا ہونے والے اس بچے کیلئے ڈاکٹر جان ژینگ اور ان کی ٹیم نے کوششیں کیں۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے پانچ ایمبریوز کو استعمال کیا جن میں سے صرف ایک کی نارمل انداز سے افزائش ممکن ہوئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تجربے کی مدد سے طب کے شعبے میں ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی ہے اور اسے استعمال کرتے ہوئے مختلف خاندانوں میں پائے جانے والے جینیاتی مسائل سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس نئی اور متنازع ٹیکنالوجی کے استعمال میں زبردست احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ سائنسدانوں نے تین مختلف افراد کے ڈی این اے سے بچہ پیدا کیا ہو، اس سلسلے میں بریک تھرو 1990ء کی دہائی میں ہوا تھا تاہم اُس وقت استعمال کی جانے والی تکنیک موجودہ تکنیک سے بالکل مختلف تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچے کی ماں کو لائے سنڈروم نامی بیماری تھی جو 40؍ ہزار میں سے ایک بچے کو متاثر کرتی ہے۔ اس نیورولوجیکل بیماری سے متاثرہ بچہ دو سے پانچ سال کی عمر میں انتقال کر جاتا ہے۔
تازہ ترین