• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان آزمائشی حالات سے گزر رہا ہے۔وطن عزیز کو اس وقت سنگین داخلی و خارجی چیلنجز کا سامنا ہے۔معاملات کی حساسیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے کشمیر میں بھارتی جارحیت پر تمام پارلیمانی پارٹیوں کی وزیراعظم آفس میں بیٹھک ہوتی ہے تو اگلے ہی دن ملک کو درپیش اندرونی خطرات سے نپٹنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کا جائزہ لیا جاتا ہے۔یہ سب حالات پوری قوم کے سامنے ہیں۔ماضی میں کبھی ایسی صورتحال نہیں رہی کہ بیک وقت مسلح افواج و قانون نافذ کرنے والے ادارے مشرقی و مغربی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر بھی دشمن قوتوں کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہوں۔تمام سیاسی جماعتوں اور حکمران جماعت کے مشترکہ اعلامیہ کے بعد بھارت سمیت پوری دنیا کو واضح پیغام گیا ہے مگر اس کے باوجود اب بھی کچھ معاملات ایسے ہیں جن پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔آج ہمیں سوچنا چاہئےکہ اس قسم کے حالات کب تک چلیں گے۔دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے والی فورسز کا سرحدوں پر طویل عرصے تک مصروف رہنا مناسب نہیں ہوگا۔ڈیڑھ ارب کے ہندوستان کی معیشت تو شاید یہ برداشت کرلے مگر پاکستان کی پنپتی ہوئی معاشی صورتحال اس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔پہلے ہی کئی کالمز میں لکھ چکا ہوں کہ پاکستانی قوم اور مسلح افواج جنگ سے خوفزدہ نہیں ہیں مگر حکمت کا تقاضا ہے کہ ہمیں شدید صورتحال سے اجتناب کرنا چاہئے۔ہمیشہ جنگ کا اختتام امن پر ہوتا ہے تو پھر میرے ملک کے غیو ر عوام اس آزمائش کا شکار کیوں ہوں۔ملکی قیادت کوحالیہ صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اگر بھارت سے کشیدگی برقرار رہی تو اس سے کسی ایک ادارے کی اہمیت میں اضافہ نہیں ہوگا بلکہ پاکستان کابہت بڑا نقصان ہوجائے گا۔ایسی صورتحال میں پاک چین اقتصادی راہداری سے توجہ ہٹ جائے گی۔ملک میں جاری ترقیاتی کاموں پر بجٹ خرچ کرنے کے بجائے جنگی ساز و سامان ہماری ترجیحات ہونگے۔جب خرانہ خالی ہوگا تولوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے جاری پروجیکٹس میں تاخیر ہوجائے گی۔اس لئے ہمیں تمام حالات وواقعات کو سمجھتے ہوئے دانشمندی سے کام لینا ہوگا۔
وزیراعظم نوازشریف کی کشمیر میں بھارتی جارحیت اور لائن آف کنٹرول پر پیدا ہونے والی کشیدگی پر بلائے گئے پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں تمام جماعتوں کی شرکت خوش آئند تھی۔حکومت سے شدید اختلافات کے باوجود پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اہم پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ شریک ہوئے۔کراچی آپریشن کو بالائے طاق رکھ کر ایم کیو ایم کا شریک ہونا بھی جمہوریت پر بھرپور اعتماد کا اظہار تھا۔مولانا فضل الرحمان نے اجلاس میں دیگر حساس معاملا ت کی بھی نشاندہی کی مگر اختلاف بھی جمہوریت کا حسن ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تشریف لائے۔مگر افسوس ہوا کہ عمران خان کو وزیراعظم کی طرف سے بلائے گئے پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔حکومت سے اختلاف علیحدہ معاملہ ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا اگر عمران خان اجلاس میں شریک ہوکر اپنا نقطہ نظر بیان کرتے تو قوم کے سامنے ان کا تاثر بہتر ہوتا۔اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں بھرپور گفتگو کی گئی۔مولانا فضل الرحمان کشمیر کے ساتھ ساتھ داخلی معاملات پر ناراض نظر آئے۔مولانا صاحب بہرحال ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں ،بھرپور مینڈیٹ لے کر ایوان میں آتے ہیں۔اس لئے ان کی رائے کو اہمیت دینی چاہئے۔کافی عرصے بعد اچھا تاثر ملا کہ وزیراعظم نوازشریف نے ایم کیو ایم کے مسائل کو غور سے سنا اور وزیر خزانہ کو بھی شریک گفتگو کیا۔ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے۔دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف کارروائی کرنا اس کی اولین ذمہ داری ہے۔مگر جمہوریت اسی بات کا درس دیتی ہے کہ اختلافات کے باوجود موقف سب کا سننا چاہئے۔وزیراعظم کے حالیہ اقدام سے کراچی کی مہاجر برادری میں بہرحال مثبت تاثر جائے گا۔جب کہ بے نظیر بھٹو شہید کے جوان بیٹے کو ملک کے اعلیٰ ترین فورم پر اپنی جماعت کی قیادت کرتا دیکھ کر اچھا لگا۔کئی سالوں بعد بھٹو خاندان کا وارث ملکی سیاسی منظر نامے پر نظر آنے لگا ہے۔اجلاس کے بعد بلاول بھٹو کی میڈیا نمائندوں سے گفتگو بھی کمال رہی۔وہ صحافیوں کے تابڑ توڑ حملوں کا خوبصورتی سے سامنا کرتے رہے اور گفتگو میں آخر میں اجلاس کے حوالے سے سخت سوال کا ہلکا سا جواب دے کر تو کمال کردیا کہ "دیر آید درست آید"۔بلاول بھٹو کے سامنے ایک روشن مستقبل ہے۔26سال کی عمر میں ملکی معاملات کے فیصلوں میں شریک ہونا معمولی بات نہیں ہے۔سیاسی میچورٹی آنا باقی ہے مگر اس کے لئے لمبی اننگ پڑی ہے۔بہتر ساتھیوں کا چناؤ کرکے اچھا سیاسی کیرئیر بنا سکتے ہیں۔جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کے سربراہ کا رویہ ہمیشہ کی طرح افسوسناک اور غیر جمہوری رہا۔عمران خان صاحب شاید سمجھ نہیں سکے کہ پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس نوازشریف کے گھر میں نہیں بلکہ وزیراعظم پاکستان کے دفتر میں ہورہا تھا۔جب آپ فورم ہی چھوڑ دیتے ہیں تو 50فیصد مقدمہ تو ویسے ہی ہار جاتے ہیں۔اس لئے تحریک انصاف کے سربراہ کو اپنے رویے میں جمہوریت لانا ہوگی۔
یہ تو حال رہا کشمیر اور بھارت کے معاملے پر تمام پارٹیوں کے اجلاس کا۔جبکہ اس اجلاس کے اگلے ہی دن ملک کے اندرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے اجلاس منعقد کیا گیا۔ملک کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ قومی قیاد ت کو بیک وقت اندرونی وبیرونی دشمن کا سامنا ہے۔اجلاس میں تمام اعلیٰ عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ چاروں وزرائے اعلیٰ شریک ہوئے۔اطلاعات ہیں کہ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے طویل گفتگو کی گئی مگر وزیراعلیٰ پنجاب مکمل تیاری کے ساتھ تشریف لائے تھے۔پہلی بار پلان پر عملدرآمد کرنے کے لئے ٹائم فریم کا تعین بھی کیا گیا ہے مگر حالیہ صورتحال زیادہ دیر چلتی ہوئی معلوم نہیں ہوتی۔دنیا میں کوئی بھی ملک دو محاذوں پر کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ایک طرف بھارت ہم سے براہ راست کشیدگی پیدا کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف اپنی خفیہ ایجنسی را کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔پاکستان کی قومی قیادت کو اس صورتحا ل سے نپٹنے کے لئے جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا ہوگا۔پاکستان کو مشرقی سرحدوں پر مصروف رکھنے کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہے۔آج کے حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ براہ راست جنگ نہیں ہوگی۔مگر ہندوستان حالیہ کشیدگی کو مزید طویل کرے گا۔اس سے جہاں پاکستان معاشی طور پر کمزور ہوگا بلکہ اس کی ملک کے اندر موجود مختلف منصوبوں سے توجہ ہٹ جائے گی۔مشرقی سرحدوں پر فوج کی مصروفیت کے باعث پاک چین اقتصادری راہداری کے لئے فوج کا سیکورٹی سنبھالنا بھی مشکل ہوگا۔ملکی قیادت سی پیک کی تیزی سے تکمیل کے بجائے تمام تر توانائی کشیدگی سے نپٹنے پر خرچ کرے گی۔اس لئے حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ہمسایہ ملک کے ساتھ اپنے آپ کو الجھانے کے بجائے مضبوط پاکستان کی راہ ہموار کریں اور مضبوط پاکستان کے لئے واحد راستہ مضبوط معیشت ہے۔


.
تازہ ترین