• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ووٹ ڈالنا ایک قومی فریضہ ہے جو ہر پاکستانی کو اپنی عقل اور سمجھ بوجھ کے مطابق ضروری ڈالنا چاہیے اور میں بھی اپنا یہ فریضہ انجام دیتا ہوں ، لیکن بطور کالم نگار میں کسی پارٹی یا سیاسی رہنما کا حمایتی نہیں ہوں کہ کسی ایک کے حق میں میں قصیدے اور دوسرے کو زہریلی تنقید کا محض اس لئے نشانہ بناتا رہوں کہ وہ مجھے ذاتی طورپر پسند نہیں ہے ، البتہ جو اچھا کام کرے اس کیلئے تعریفی کلمات لکھنا اورکسی غلط کام کرنے والے کو یہ کہنا کہ اس نے یہ غلط کام کیا ہے یہ بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے، لیکن میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ کچھ لوگوں کو کسی ایک میں صرف اچھائیاں اور خوبیاں ہی خوبیاں نظر آتی ہیں اور اس کی بے وقوفی یا خامی کو بھی خوبی میں بدلنے کیلئے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کرتے نظر آتے ہیں اور اسی طرح مخالفین کیلئے ہمارے پاس کوئی خیر کا کلمہ نہیں ہوتا ہم اس کی ہمیشہ خامیوں کی ہی تلاش میں رہتے ہیں اور حقیقت میں بھی وہ بر اہو نے یا خامیوں سے اٹا ہوا ہو اور راہ راست پر آجائے تو ہم اس کی بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے بلکہ اسے جھوٹا یا ڈرامہ قرار دے کر اپنی نفرت کی مہم کو اور تیز کردیتے ہیں کہ کہیں یہ واقعی خود کو درست نہ کرلے یا اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا ازالہ نہ کرلے اگر ایسا ہوگیا تو پھر ہم کس پر طعنہ زنی یا تنقید کرینگے ہم کچھ سیاستدانوں کو یوٹرن کا طعنہ دیتے ہیں لیکن میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے سیاست دانوں کو یو ٹرن ہی لیتے دیکھا ہے مجھے کوئی ایک بھی ایسا سیاست دان نظر نہیں آتا جس نے اپنے ایک مؤقف کو تبدیل کرتے ہوئے ، ایک نئے یا دوسرے مؤقف کا سہرا نہ سجایا ہو یا اپنی کہی ہوئی بات کی خود ہی نفی نہ کی ہو، ہاں البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ اپنے مؤقف سے پھرنے کے بعد ان رہنما ئو ں کے اخبارات میں یہ بیانات ضرور پڑھے ہیں کہ میرے بیان کو توڑ مروڑکر پیش کیا گیا ہے ،میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں تھا بعض اوقات ایسا بھی ضرور ہوتا ہے کہ ہمارے یار دوست اپنے مطلب کی چیز کو یا فقرے کو اس خوبصورتی سے اچک لیتے ہیں کہ کہنے کا مقصد کچھ بھی ہو، محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت میں ایسا ہی ہے جیسا اخبارات کی زینت بنایا گیا ہے ۔ہما رے لیڈران کے کچھ بیانات اور مؤقف تو ایسے بھی سا منے آئے ہیں کہ ایسا محسو س ہو ا بلکہ یقین سا ہو نے لگا کہ واقعی اس بیان کے پیچھے اس شخص کی سوچ بھی ایسی ہے مثلاً ہمارے سا بق کمانڈو صدر بار بار مکا لہرا کرکہا کرتے تھے کہ میں’’ڈرتا ورتانہیں ہوں‘‘ لیکن عدالتوں میں پیش ہونے سے وہ ایسے بدکتے تھے کہ عدالت جاتے جاتے بغیر انڈیکیٹر دیئے ہسپتال کی طرف مڑ جاتے اور بیماری کا بہانہ بنا کر مر یضا نہ بیڈ سے لپٹ کر اور تکیے کے نیچے منہ دے کر کہا کرتے میں ’’ ڈرتا ورتا نہیں ہوں‘‘ اور پھر نہ جانے کس نے انہیں ایسا ڈرایا کہ کمر کی تکلیف کا بہانہ بنا کر بیرون ملک ٹھمکوں کے ذریعے کمر کی ایکسرسائز کرتے نظر آئے۔
اور ایم کیو ایم کے جانثاروں کے کیا کہنے انہوںنے تو بانی بھائی سے ایسا یو ٹرن لیا ہے کہ ہائے اس زودپشیماں کا پشیماں ہونا ،کسی کو یقین ہی نہیں آتا کہ ایک ’’خاموش ‘‘کہہ دینے پر خاموشی اور جی بھائی جی بھائی کی گردان کرنے والے آج اکڑے بیٹھے ہیں، جبکہ ’’سب پہ بھا ری اور اینٹ سے اینٹ بجادینے والے تو ایسے بھاگے ہیں کہ اینٹوں کے بھٹوں والے بھی یہ کاروبار چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں، اور کپتان تو یو ٹر ن کے فن میں ایسے یکتا ہیں کہ ان کے قریب قر یب کو ئی پھٹک ہی نہیںسکتا ۔ میاں صاحب جنہوںنے پارلیمنٹ ہاؤس میں خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کا بلند و بانگ اعلان کیا تھا، پوری قوم اس اعلان کو عملی جامہ میں دیکھنا چاہتی ہے لیکن پا کستا نی قو م کی ایسی قسمت کہا ں،پاکستانی قوم کاتو وہ حال ہے کہ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’’ او دھیاڑا ڈبا جدوں گھوڑی چڑیا کھبا‘‘ بطور قوم ہم نے یوٹرن کی سیاست ، یوٹرن کی لیڈر شپ اور اپنے سیاسی اقوال زریں سے پھرنے والے ہی دیکھے ہیں۔ کاش ہم بھی کسی ایسے رہنما کو دیکھ لیں جو ایمانداری اور اچھی صلاحیتوں کے ساتھ ہمارے ملک کو دنیا میں بہترین ملک کے طور پر متعارف کراسکے۔

.
تازہ ترین