• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز پاکستان کا سیاسی منظرنامہ ایک بار پھر گرما گرم دکھائی دے رہا ہے۔ سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے بھی نئے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ شنید ہے کہ ایک نئے لندن پلان کی تیاری ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 30اکتوبر کو کیا ہونے والا ہے؟ کیا پاناما لیکس پر اپوزیشن کے احتجاج سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہو جائے گی یا حالات جوں کے توں رہیں گے؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قومی ایشوز پر احتجاج کرنا ہر سیاسی پارٹی کا آئینی و جمہوری حق ہے۔ تحریک انصاف نے 30اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنے کا پروگرام بنایا ہوا ہے۔ اسی روز 30اکتوبر کو امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی لاہور میں کرپشن کے خلاف ایک بڑے جلسہ عام کا اعلان کر دیا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف سب سے پہلے جماعت اسلامی نے ہی کرپشن فری پاکستان تحریک شروع کی تھی مگر جونہی پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کی فیملی اور یگر پاکستانیوں کے نام سامنے آئے تو کرپشن فری پاکستان کا نعرہ عوامی شکل اختیار کر گیا۔ اس وقت منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ عملی طور پر پاناما لیکس اور کرپشن کے خلاف احتجاج میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ہی سرگرم عمل دکھائی دے رہی ہیں۔ سب سے پہلے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ہی کرپشن کے خلاف پورے ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاجی جلسے منعقد کئے۔ کراچی، پشاور، اسلام آباد، لاہور، ملتان، فیصل آباد اور اندرون سندھ کے شہروں میں جماعت اسلامی نے کرپشن فری پاکستان مہم بھرپور انداز میں چلائی۔ کوئی مانے یا نہ مانے کرپشن اور پاناما لیکس کے ایشو پر عوامی احتجاج کو منظم کرنے کا کریڈٹ جماعت اسلامی اور سینیٹر سراج الحق کو جاتا ہے۔ ہاں! تو میں عرض کر رہا تھا کہ پاناما لیکس اور کرپشن کے ایشو پر ابھی تک جماعت اسلامی اور تحریک انصاف دو ہی ایسی پارٹیاں ہیں جو کھل کر پورے ملک میں عوامی احتجاج کررہی ہیں اور میدان عمل میں دکھائی دے رہی ہیں۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کے اندر تو پاناما لیکس کے معاملے پر تنقید کرتی ہے مگر وہ اپنے احتجاج کو ابھی تک عوامی رنگ نہیں دے پائی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پیپلز پارٹی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ گزشتہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہی کردار مسلم لیگ (ن) بھی ادا کرتی رہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ صرف قومی اسمبلی میں حکومت کے خلاف گرجتے نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف احتجاج کو ہائی پروفائل نہیں کرے گی بلکہ یونہی باقی ماندہ مسلم لیگ (ن) کا ڈیڑھ سال کاعرصہ اقتدار گزار کر بالآخر پھر 2018کے الیکشن میں قسمت آزمائی کرے گی۔ 2013کے الیکشن میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں سیٹوں کے اعتبار سے پیپلز پارٹی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف پیپلز پارٹی کا ہے۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ اپوزیشن کے طور پر جو قائدانہ کردار پیپلز پارٹی کو ادا کرنا چاہئے تھا وہ اب تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی آئندہ الیکشن میں پھر اپنی باری کا انتظار کررہی ہے۔ حالانکہ ایسا ہوتا ہرگز نظر نہیں آتا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی پیپلز پارٹی کی ماضی میں ناکامیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ موجودہ حکومت کو برسر اقتدار آئے ساڑھے تین سال گزرچکے ہیں مگر حقیقی معنوں میں عوام کو ریلیف ابھی تک نہیں ملا۔ مہنگائی اور کرپشن اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے بلکہ پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد تو پورا ملک ہی کرپشن کی دلدل میں پھنسا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مٹھی بھر اشرافیہ نے تمام ملکی وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ بہرکیف پاکستان میں دو ہی ایسی جماعتیں ہیں جو اسٹیٹس کو توڑ سکتی ہیں وہ ہیں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کئی بار برسر اقتدار آ چکی ہیں اور عوم ان سے مایوس ہوچکے ہیں۔ اگست 2014 میں شروع ہونے والے 126دن کے دھرنے سے جو مطلوبہ نتائج جو نکل سکتے تھے بدقسمتی سے ان کو بھی حاصل نہیں کیا جاسکا۔ عمران خان کی سیاسی ناپختگی کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کا اقتدار پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا۔ اگر عمران خان اُس وقت چیف آف آرمی اسٹاف کے مشورے کو مان لیتے اور مائنس نواز شریف کی شرط سے ہٹ کر باقی مطالبات منوا لیتے تو آج صورتحال بالکل مختلف ہوتی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اس وقت احتجاجی دھرنے سے خاصی دبائو میں آچکی تھی۔ وہ انتخابی اصلاحات اور چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کے لئے تیار تھی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی اسلام آباد کے گزشتہ دھرنے کو ختم کرنے والے کے لئے مذاکرات کے ذریعے جمہوری سسٹم کو بچانے میں قابل تحسین کردار ادا کیا تھا۔ اگرچہ اُس وقت بھی ملک کے سنجیدہ قومی و سیاسی حلقے 2014 کے احتجاجی دھرنے کی غیرضروری طوالت اور ٹائمنگ پر سوالات اٹھا رہے تھے۔ اگر دیکھا جائے تو ماضی میں 126دن کے احتجاجی دھرنے کا ملکی معیشت پر نہایت برا اثر پڑا تھا بلکہ چینی وزیراعظم شی چن پنگ کاپاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے انتہائی اہم دورہ پاکستان بھی ملتوی ہو گیا تھا جو بعد ازاں دھرنے کے اختتام پر ممکن ہوسکا تھا۔ یہ کہنا کہ 30اکتوبر کو اسلام آباد بند کروا دیں گے اور وزیراعظم کے استعفے تک واپس نہیں آئیں گے جمہوری طرزعمل نہیں اس سے ملک و قوم کے لئے نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ عمران خان کو سولو فلائٹ نہیں کرنی چاہئے، انہیں جماعت اسلامی کے طرز سیاست سے سیکھتے ہوئے اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ قصہ مختصر! سیاست میں صبر و تحمل کامظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ جذبات میں آکر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ایک بار پھر اقتصادی راہداری کے منصوبے کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ چینی سفارتخانے نے واضح کیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے فوائد پورے ملک کو حاصل ہوں گے۔ اس لئے یہ تاثر درست نہیں ہے کہ اس کا فائدہ صرف ایک صوبے کو ہو گا۔ علاوہ ازیں مغربی روٹ بھی اس منصوبے میں شامل ہے اور یہ بھی طے شدہ شیڈول کے مطابق مکمل ہو گا۔ چینی سفارتخانے کی اس وضاحت کے بعد سی پیک پر مخالفانہ اور بے بنیاد پروپیگنڈہ اب بند ہو جانا چاہئے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اگرچہ آئندہ آنے والے دن بڑے اہم ہیں تاہم مسلم لیگ ن اس مشکل اور کٹھن مرحلے سے پھر نکل جائے گی البتہ مسلم لیگ کو اپوزیشن کی طرف سے ٹف ٹائم ضرور ملے گا۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت سی پیک کے معا ملے پر ایک پیج پر آ چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت اپوزیشن کے متفقہ ٹی او آرز پر عدالتی کمیشن کا اعلان کرتی ہے یا پھرحسب سابق سیاسی کشمکش مزید بڑھے گی؟


.
تازہ ترین