• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دفاع پاکستان کونسل کے جلسے اور دھرنے میں تال میل نظر آتا ہے، تجزیہ کار

کراچی (جنگ نیوز)سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ عمران خان اور نواز شریف میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے، عمران خان نے جہانگیر ترین کی بات سنی تو دھرنا دیں گے لیکن اگر شاہ محمود قریشی کی بات سنی تو انہیں سیاسی مفاہمت بہتر راستہ نظر آئے گا،دفاع پاکستان کونسل کا جلسہ کشمیری عوام کیلئے مفید ثابت نہیں ہوگا، مولانا سمیع الحق تو ٹی ٹی پی کا کیس پیش کرتے رہے ہیں، جب ایسے لوگ کشمیر یوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو دنیا میں کیا تاثر جائے گا، عمران خان کے دھرنے اور دفاع پاکستان کونسل کے اسلام آباد جلسے میں تال میل نظر آتا ہے، دفاع پاکستان کونسل کا جلسہ کشمیریوں کیلئے نہیں ہورہا بلکہ اس کے سیاسی مقاصد ہیں۔مظہر عباس، بابر ستار، شہزاد چوہدری، امتیاز عالم اور حفیظ اللہ نیازی نے ان خیالات کا اظہار جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان رابعہ انعم سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔میزبان کے پہلے سوال رحمن ملک اور عمران خان کے بیانات، کیا ن لیگ اور تحریک انصاف میں مفاہمت ہوسکتی ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے شہزاد چوہدری نے کہا کہ ن لیگ اور تحریک انصاف میں مفاہمت کے چانسز زیادہ ہیں، عمران خان نے اگر جہانگیر ترین کی بات سنی تو دھرنا دیں گے لیکن اگر شاہ محمود قریشی کی بات سنی تو انہیں سیاسی مفاہمت بہتر راستہ نظر آئے گا۔مظہر عباس نے کہا کہ تحریک انصاف اورمسلم لیگ ن میں معاہدہ تو ہوسکتا ہے مفاہمت نہیں ہوسکتی ، عمران خان اگر مفاہمت کی طرف گئے تو پی ٹی آئی کی سیاست کیلئے نقصان دہ ہوگی، ن لیگ تو مفاہمت کی سیاست کرتی رہی ہے جس کی بڑی مثال پیپلز پارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت ہے۔حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ عمران خان اور نواز شریف میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے، عمران خان اپنی اس خوبی پر اتراتے ہیں کہ وہ جو بات ایک دفعہ کہہ دیں اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔امتیازعالم نے کہا کہ تاریخی حالات نے ن لیگ اور پی ٹی آئی کی تقدیر میں لکھ دیا ہے کہ ان کی مفاہمت نہیں ہوسکتی، مسلم لیگ ن 2018ء کے انتخابات کی تیاری کررہی ہے جس میں عمران خان خلل ڈالنا چاہتے ہیں، حکومتی پارٹی ہونے کے ناطے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا مسلم لیگ ن کے مفاد میں ہے، عمران خان جن لوگوں کی راہ پر چل رہے ہیں وہ انہیں گمراہ کررہے ہیں، پاور پلے کے ملک میں بڑے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں، عمران خان پاکستان کی سیاست کے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔بابر ستار کا کہنا تھا کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے مقاصد بالکل مختلف ہیں، دونوں جماعتوں میں کسی طرح بھی مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے، نواز شریف اپنی مدت پوری کر کے آئندہ الیکشن جیتنا چاہتے ہیں، عمران خان سوچتے ہیں کہ حکومت 2018ء تک چل گئی تو اگلے الیکشن میں ان کی باری نہیں آئے گی۔دوسرے سوال دفاع پاکستان کونسل کا 28اکتوبر کو اسلام آباد میں جلسے کا اعلان، بین الاقوامی سطح پر کشمیری عوام کیلئے مفید ہوگا؟ کا جواب دیتے ہوئے بابر ستار نے کہا کہ دفاع پاکستان کونسل کا جلسہ کشمیری عوام کیلئے مفید ثابت نہیں ہوگا، مولانا سمیع الحق تو ٹی ٹی پی کا کیس پیش کرتے رہے ہیں، جب ایسے لوگ کشمیر یوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو دنیا میں کیا تاثر جائے گا، اس پلیٹ فارم سے ملک میں نظریاتی کنفیوژن پھیلائی گئی ہے۔حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ دفاع پاکستان کونسل اگر جلسہ کر کے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہے تو پاکستان میں رائے سازی میں بڑا کام کرے گی، اس کے اثرات کشمیر تک بھی پہنچیں گے، کشمیر میں انتہاپسند ہندو تنظیموں کو کام کرنے کی مکمل چھوٹ ملی ہوئی ہے، ہمیں اس معاملہ پر معذرت خواہانہ رویہ نہیں اختیار کرنا چاہئے۔امتیاز عالم نے کہا کہ دفاع پاکستان کونسل آزاد آپریٹر نہیں ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ انہیں کب میدان میں لایا جاتا ہے، دفاع پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا تمام کالعدم تنظیمیں شامل تھیں، کشمیریوں کی جدوجہد جمہوری رہی تو اسے بھارت اور دنیا بھر میں حمایت مل سکتی ہے، دفاع پاکستان کونسل جیسی تنظیمیں کشمیر کے ایشو پر سامنے آتی ہیں تو دنیا میں کشمیریوں کی حمایت منفی ہوجاتی ہے، عمران خان کے دھرنے اور دفاع پاکستان کونسل کے اسلام آباد جلسے میں تال میل دیکھتا ہوں، یہ کوششیں وزیراعظم پر دباؤ ڈالنے اور جہادیوں کی دوبارہ بحالی کیلئے ہورہی ہیں۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ دفاع پاکستان کونسل کا اسلام آباد میں جلسہ کشمیریوں کیلئے نہیں ہورہا بلکہ اس کے سیاسی مقاصد ہیں، برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں کی جدوجہد کو 125دن سے زیادہ ہوچکے ہیں ،دفاع پاکستان کونسل اب تک کیا کررہی تھی، 28اکتوبر کو دفاع پاکستان کونسل کے جلسہ سے دو نومبر کیلئے ماحول بنایا جارہا ہے۔
تازہ ترین