• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ میںزیر سماعت پاناما کیس کو دیکھ کر ذوالفقار علی بھٹوکا کیس یاد آگیا۔سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جب قتل میں معاونت کا معاملہ عدالت میں چل رہا تھا تو ان کے وکلا چیف جسٹس کے سامنے بڑے جذباتی دلائل دیتے تھے۔مورخین لکھتے ہیں کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 109کے کیس کی سماعت جب شروع ہوتی تھی تو وکلا عدالت کے سامنے دلائل دیتے تھے کہ اگر بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو ہمالیہ روئے گا اور پنڈورا بکس کھل جائے گا۔ اگر بھٹوکو کچھ ہوا تو پاکستان یتیم ہوجائے گا۔عدالت میں کیس پر دلائل دینے کے بجائے مال روڈ اور لیاقت باغ میں کارکنوں کی خود سوزیوںکا تذکرہ کیا جاتا تھا۔سندھ کے ٹوٹنے کے حوالے سے خوفناک دلائل دئیے جاتے تھے مگر کوئی ایک بھی وکیل عدالت کو یہ نہیں بتاتا تھا کہ ملک کا منتخب وزیراعظم قتل کی معاونت میں شریک نہیں ہے۔کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب نے اپنی بیوی نصرت بھٹو سمیت قریبی رفقا سے کئی مرتبہ جذباتی ہوکر کہا کہ انہیں بحث میرے قتل میں ملوث نہ ہونے پر کرنی ہے مگر یہ قتل پر کوئی بات نہیں کرتے اور ہر سماعت پر میرے لئے پورے ملک میں صف ماتم بچھا دیتے ہیں،آخر یہ چاہتے کیا ہیں؟بھٹو صاحب نے حفیظ پیرزادہ کے سامنے اس معاملے پر شدید برہمی کا اظہار بھی کیا اور پھر تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا کہ ملک کا منتخب وزیراعظم پھانسی چڑھ گیا اور ہمالیہ سمیت ہر چیز اپنی جگہ پر قائم رہی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنادی گئی تو انہوں نے کئی لوگوں کو یہ بات کہی کہ "میرے وکلانے مجھ سے انتقام لیا ہے"۔
آج ملک کے منتخب وزیراعظم کے خلاف پاناما سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں باقاعدہ سماعت کے لئے لگ چکا ہے۔آئندہ ہفتے پاناما سے متعلق کیس میں کمیشن بننے کا بھی قوی امکان ہے۔ملکی تاریخ میں وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ چلنا کوئی نیا نہیں ہے۔اس سے قبل ماضی میںعدلیہ ایک منتخب وزیراعظم کو گھر جب کہ دوسرے کو تختہ دار پر بھیج چکی ہے۔ذوالفقا ر علی بھٹو شہید اور یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ سے سزا پانے والے وزرائے اعظم تھے۔ماضی میں وزیراعظم نوازشریف بھی توہین عدالت کے معاملے پر سپریم کورٹ کے سامنے آچکے ہیں۔مگر اس مرتبہ معاملے کی نوعیت مختلف ہے۔ملکی عدلیہ نے کبھی بھی کسی وزیراعظم کو کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات پر گھر نہیں بھیجا۔ارباب و اختیار کے خلاف سنگین کرپشن کے معاملات عدالت کے سامنے ضرور لائے گئے مگر ہمیشہ معاملہ نیب اور ایف آئی اے کے سپرد کیا گیا ،جس کے بعد آج تک ان فائلوں پر جمی ہوئی گرد صاف نہیں ہوئی۔دیکھا جائے تو ہمسایہ ملک بھارت میں کئی مرتبہ وزیر اعلیٰ سمیت سینئر حکومتی شخصیات کو کرپشن کے الزامات ثابت ہونے پر جیل جانا پڑامگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسی کوئی قابل ذکر روایت نہیں ہے۔آج سپریم کورٹ واشگاف الفاظ میں یک رکنی کمیشن کے حوالے سے اپنے ریمارکس دے چکی ہے، مگر کمیشن کے قیام سے قبل ہی کمیشن کے آئینی دائرہ کار پر بحث شرو ع کردی گئی ہے۔کچھ قانون دانوں کی رائے ہے کہ چونکہ کمیشن کے پاس سپریم کورٹ کے جج کے اختیارات ہونگے۔اس لئے کمیشن باآسانی معاملے کی تہہ تک پہنچ جائے گا۔مگر ایک موثر رائے یہ بھی ہے کہ کمیشن کے پاس اگر سپریم کورٹ کے اختیارات ہونگے تو تحقیقات کرنا سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔گزشتہ روز معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر نے بھی بالا معاملات پر کھل کر بات کی ہے ۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا دکھائی دے رہا ہے۔ویسے کیس کے آغاز سے قبل وزیراعظم نوازشریف کی قانونی ٹیم کی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے۔میڈیا ٹیم سے لے کر وکلا کی ٹیم تک ،سب کے اعتماد میں گہرا فقدان نظر آرہا ہے۔کیس کے قانونی پہلوؤں پر بات کرنے کے بجائے مخالفین پر تنقید اور غیر سنجیدہ گفتگو کا ناختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔مسلم لیگ ن کے اکابرین آج جس عدم برداشت اور غیر مہذب زبان پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں ،آج ان کے جونیئر رہنما یہی کچھ کررہے ہیں۔اگر تحریک انصاف کےعمران خان غیر شائستہ زبان کے حوالے سے مقبول ہیں تو مسلم لیگ ن کے دانیال عزیز،طلال چوہدری کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان خود ہی بہتر انصاف کرسکتے ہیں۔جس انداز میں وزیراعظم کی ٹیم پاناما کیس میں ان کا دفاع کررہی ہے ،مجھے رہ رہ کے ذوالفقار علی بھٹو کا دفاع یا د آرہا ہے۔وزیراعظم نوازشریف صاحب! کیاآپکی ٹیم آپکے ساتھ وہی کرنا چاہتی ہے جو ماضی میں بھٹو صاحب کے ساتھ ان کی ٹیم نے کیا تھا؟۔یہ آپ کو سب اچھے کی رپورٹ دیتے ہیں مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔
آئندہ ہفتے سے پاناما کیس کا معاملہ روزانہ کی بنیادوں پر چلنا شروع ہوجائے گا۔عدالت کا موڈ بتارہا ہے کہ کیس پر جلد از جلد فیصلہ کرلیا جائے گا۔وزیراعظم نوازشریف سمیت تمام بااثر افراد کے حوالے سے تحقیقات کرنا عدالت کا حق بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔معاملے میں عمران خان ،ان کی بہن اور جہانگیرترین کا نام بھی لیا جارہا ہے۔مگر عدالتی فیصلے سے قبل کسی پر بھی الزام لگانا مناسب نہیں ہوگا۔لیکن یہ خوش آئند ہے کہ ملک میں پہلی بار بااثر سے احتساب شروع کیا گیا ہے۔اگر اس مرتبہ بھی انصاف کے تقاضے پورے نہ کئے گئے تو عوام کا اداروں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات میں اب کسی بھی فریق کی طرف سے اثر اندا ز ہونے کی کوشش نہ کی جائے۔امریکہ میں حالیہ انتخاب میں ہیلری کلنٹن حکمران جماعت کی امیدوار ہیں۔امریکی صدر اوباما اور ان کی اہلیہ دن رات ہیلری کے لئے جدوجہد کررہے ہیں مگر الیکشن مہم ختم ہونے سے دو ہفتے قبل ایف بی آئی نے صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کے متنازع ای میلزمعاملے کو دوبارہ اٹھایا۔مگر کسی صدر یا حکومتی عہدیدار کی جرات نہیں ہوئی کہ تحقیقات میں مداخلت کرے یا اثر انداز ہو۔اسی طرح بھارت میںبہت مضبوط جمہوریت ہے۔ملک کا وزیراعظم سیاہ سفید کا مالک ہوتا ہے۔تمام مسلح افواج کے سربراہان، چیف جسٹس سپریم کورٹ سمیت تمام ادارے چیف ایگزیکٹو کو جواب دہ ہیں۔انتظامی معاملات میں مدد کے لئے چیف جسٹس سپریم کورٹ وزیراعظم بھارت سے درخواست کرتا ہے مگر جب سی بی آئی کسی معاملے کی تحقیقات شروع کردے تو بھارت جیسے ملک میں بھی وزیراعظم کی جرات نہیں ہے کہ مداخلت کرے یا پھر اثر انداز ہو۔مضبوط او ر مستحکم پاکستان کے لئے اشد ضروری ہے کہ پاناما کیس کی شفاف،غیر جانبدار او ر جامع تحقیقات ہوں ۔تاکہ ملکی تاریخ کا یہ سیاہ باب بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے۔





.
تازہ ترین