• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 ’’پاکستان کی فلمی صنعت کن مشکلات سے دوچار ہے اور اسےکس قسم کی امداد کی ضرورت ہے،یہ باتیں بھی ہمارے گوش گزار ہوچکی تھیں۔ ہمارا حب الوطنی کا جذبہ بھی جوش میں آگیا تھا۔ ہم بمبئی کےمعیاری فلمی میگزین پڑھنے کے بعد یہ سوچنے لگے تھے کہ آخر ہمارےملک میں فلمی صنعت اتنی بڑی اور اہم کیوں نہیں ہوسکتی؟ یہاں اچھی فلمیں کیوں نہیں بن سکتیں؟ یہاں کے فلم والوں کے پاس دولت کی ریل پیل کیوں نہیں ہوسکتی؟ بھارتی اداکاروں کو چھوڑ کر لوگ پاکستانی فنکاروں کے پرستار کیوںنہیںبن سکتے؟ بظاہر یہ کام بہت مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا تھا کیونکہ بھارتی فلمیں اور فلمی ستارے پاکستانی فلم بینوں کےرگ و پے میں بسے ہوئے تھے۔ ایک دو سال پہلے تک وہی ان کے محبوب تھے اور ان کی فلمیں دیکھ کر ہی خوش ہوا کرتے تھے۔ بھارتی فلموں کا سحر سارے ملک پر طاری تھا۔ پاکستان میں تو فلمیں ہی برائے نام بنتی تھیں۔ نہ فن کار موجود تھے نہ تکنیک کار نہ نگارخانے اور نہ ہی ضروری ساز و سامان۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پیسے کی شدید کمی تھی۔ جن سرپھروں نے ہمت کرکے فلمیں بنانے کی کوشش کی وہ سر ٹکرا کر رہ گئے۔ 1948میں یہاں کی بنی ہوئی صرف چار فلمیں ریلیز ہوئیں یعنی ’’تیری یاد‘‘، ’’ہچکولے‘‘، ’’شاہدہ‘‘ اور ’’سچائی‘‘۔ ’’تیری یاد‘‘ کے ہدایتکار دائود چاند تھے۔ کاسٹ میں آشا پوسلے، ناصر خان (دلیپ کمار کےبھائی) شعلہ اور غلام محمدشامل تھے۔ بھارت کے دلیپ کمار، راج کپور، دیوآنند، مدھو بالا، نرگس اور مینا کماری کے مقابلے میں ان کی کیا حیثیت تھی؟ ’’ہچکولے‘‘ کے ہدایتکار بھی دائود چاند تھے۔ ماسٹر عنایت حسین نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی اور بے سرو سامانی کے عالم میں اتنی اچھی دھنیں بنائی تھیں کہ اس فلم کے کئی گانے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ اس فلم میں سدھیر نے کام کیا تھا مگر سدھیر کو اس وقت جانتا کون تھا؟
بھارت سے آنے والی ہیروئین نجمہ ان کے ساتھ ہیروئین تھیں۔ یہ ہندوستان میںبھی ہیروئین تھی۔ پاکستان آ کر چند فلموں میں کام کرنے کے بعد انہوں نے ملک باری سے شادی کرلی۔ فلم کو خیرباد کہہ دیا۔ نجمہ بہت حاضر جواب اور ذہین اداکارہ تھیں۔ خوب صورت بھی تھیں۔ سعادت حسن منٹو کی وہ بہت مداح تھیں۔ ’’شاہدہ‘‘ کے ہدایتکار بھی لقمان صاحب تھے۔ اب ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ’’شاہدہ‘‘ پاکستان میں شروع ہونے والی پہلی فلم تھی۔ وہ یہ باور کرانےکے لئے بہت سے کاغذات بھی اپنے ساتھ لئے پھرتے تھے۔ ’’شاہدہ‘‘ میں بھی ناصر خان ہیرو تھے۔ دلیپ کمار کے بھائی تھے اور ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب وہ دلیپ کمار سے بڑے اداکار سمجھے جاتے تھے حالانکہ وہ چھوٹے بھائی تھے۔ پاکستان بننے کےبعد وہ لاہور آگئے تھے اور لکشمی چوک کے ایک فلیٹ میں رہا کرتے تھے۔ ان کا اور دلیپ کمار کا معاملہ کچھ ایسا ہی تھا جیسا کہ سنتوش کمار اور درپن کا تھا۔ درپن چھوٹے بھائی تھے مگر سنتوش سے پہلے پاکستان میں ہیرو بن گئے۔ ’’سچائی‘‘ اداکار و ہدایت کار نذیر صاحب کی فلم تھی جس کے موسیقار جی اے چشتی تھے۔ غصے کے بہت تیزتھے۔ ’’مغل اعظم‘‘ والے کے۔ آصف ان کے بھانجے تھے جو آصف دھانسو کہلاتے تھے۔ ہم تو ’’آفاق‘‘ کے فلمی صفحے کا ذکر کر رہے تھے مگر طائر خیال کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ ہم پہلے ہی آپ کو خبردار کرچکے ہیں کہ اس الف لیلیٰ میں آپ کو بات سے بات اور کہانی سے کہانی نکلتی ہوئی ملے گی اس لئے کہانی در کہانی سے گھبرائیں نہیں۔ میر صاحب کا خیال تھا ڈیڑھ دو کالم فلم کے لئے وقف کردیئے جائیں تو بہت کافی ہوگا مگر ہم نے پہلے ایڈیشن میں ہی فلم کے بارےمیں پورا صفحہ شائع کردیا۔ اس میں زیر تکمیل فلموں کی خبریں بھی تھیں، انٹرویو اور مضامین بھی تھے، تصویریں بھی تھیں۔ ایک اچھے فلم میگزین میں جو ہوسکتا تھا، وہ سب اس میں تھا اور خاص بات یہ تھی کہ پہلی بار اس فلمی صفحہ کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا تھا کہ پاکستان میں بھی فلمی صنعت کا وجود ہےجس میں بہت اچھے اور نامور لوگ موجود ہیں۔ یہ فلمی صفحہ بہت خوبصورت تھا اور سچی بات یہ کہ اردو اخباروں کے اعتبار سے یہ ایک انوکھی بات تھی۔ جس نے اسے دیکھا بس دیکھتا اور پڑھتا ہی رہ گیا مگر جب صبح سویرے ہم نے ’’آفاق‘‘ اٹھایا اورفلمی صفحہ کھولا تو ایک لمحہ کے لئے تو ہمارا دل دھک سے رہ گیا۔ کہاں تو یہ کہ روزناموں میں کبھی فلم کا تذکرہ تک نہیں آتا تھا اورکہاںیہ کہ ایک پورا صفحہ فلمی ہستیوں اور فلمی خبروں سے بھرا پڑا تھا۔ ظہور عالم شہید صاحب کی وارننگ بھی ہمیں یاد آگئی کہ جو بھی انجام ہوگا تم خود ہی بھگتنا۔ہمیں اندازہ تھا کہ اس وقت صحافتی حلقوں میں یہی صفحہ زیر بحث ہوگا اور ہمارے ایڈیٹر صاحبان محدب شیشہ لگا کر اس کے مندرجات دیکھ رہے ہوںگے۔ مگر مرتا کیا نہ کرتا، دفتر تو آخر جانا ہی تھا۔ دفتر پہنچے تو وہی پرانا منظرنامہ تھا۔ ہمارے ساتھی ہمیں دھمکا رہے تھے۔ چپراسی نے بتایا کہ میر صاحب کئی بار ہمیں طلب کرچکے ہیں اور ان کے پاس مولانا غلام رسول مہر بھی تشریف فرما ہیں۔ ہم نے چاروں قل اور الحمد شریف پڑھ کر اپنے اوپر پھونک ماری اور میر صاحب کے کمرے میں پہنچ گئے۔‘‘ (جاری)


.
تازہ ترین