• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرحبا ماہ ربیع الاول مرحبا تحریر:طلعت سلیم ایم بی ای…برمنگھم

اللہ رب العزت کی رحمتوں سے مزین، وہ جگ مگ کرتا مبارک، معطر، مطہر و منور مہینہ آن پہنچا۔ 571ھ میں جس کی ایک مبارک صبح، نغمہ زار حیات میں یکبارگی ایک الوہی جلترنگ بج اٹھا۔ پھولوں کی مہکار، خوشیوں کی جھنکار، فضائوں میں کیا کیا کچھ اتر آیا۔ سرزمین عرب کے شہر مکہ معظمہ میں ہرسو ایک خوبصورتی تقدس، مسرت سرخوشی لہرانے لگی عجب کیف و نشاط و انبساط کا عالم تھا۔یہ بارہ ربیع الاول کی صبح تھی۔ نور و نگہت سے معمور، بڑی ہی دلآویز صبح، پیر کا دن تھا۔ آج گلستان بنو ہاشم میں بڑے ہی معزز و محترم قریش قبیلے کے سردار حضرت عبدالمطلب کے عزیز از جان بیٹے عبداللہ مرحوم کی بیوہ بی بی آمنہ کے آنگن میں ایک خوشنما، خوشبودار خوش رنگ پھول کھلا تھا، جگمگاتا چاند اترا تھا۔ روشن چمکیلا ستارہ طلوع ہوا تھا ان کی چھت پر، اس نورانی فضا میں آج ہمارے نبی محترم احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے عزو جاہ سے دنیا میں تشریف لائے، جن کے ورد مسعود پر فرشتے استقبالیہ نغمے گا رہے تھے اور خلق خدا کے لبوں پر مرحبا، مرحبا کی صدائیں تھیں۔ آج رات قیصر و کسریٰ کے چودہ کنگرے خود بخود نیچے آن گرے تھے صدیوں سے، فارس کے آتشکدہ میں جلنے والی آگ بجھ گئی۔
یہ اللہ کے محبوب کی آمد تھی جن کی تشریف آوری کی نویدیں صحفیوں کے اوراق پر ثبت تھیں۔ یہودی اور نصرانی راہب اور عالم اس ساعت ذریں کے انتظار میں آنکھیں بچھائے بیٹھے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ’’میرے بعد ایک نبی آنے والا ہے جس کا نام احمد ہوگا‘‘ کہہ کر یہ نوید جانفزا سنائی تھی۔ بی بی آمنہ نے احمد ہی نام رکھا تھا، مگر حضرت عبدالمطلب نے محمد ایسا نادر نایاب نام تجویز کیا جو اس سے پہلے کسی نے رکھا، نہ سنا تھا۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمعیل کے ہمراہ خانہ کعبہ کی بنائی رکھتےوقت اللہ سے دعا کی تھی اے اللہ میری اولاد میں سے ایک پیغامبر بھیجنا۔ وہ دعا آج مجسم ہوکر اس کی مقبولیت کا اعلان کررہی تھی۔ وہ دعائے خلیل و نوید مسیحا جنہیں اللہ نے اپنا محبوب کہا۔ وہ نبیوں کے سردار، دو عالم کے تاجدار تشریف لے آئے جنہیں اللہ نے رحمتہ اللعالمین کہا۔ ان کی امت کو بہترین امت اور ان کے لائے ہوئے دین کو بہترین دین کہا۔ہم گناہ گار کتنے خوش بخت ہیں کہ اس سیرت باکمال، صورت بے مثال، سراپا جاہ و جلال، عظمت و جمال محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی بنے۔
یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
ہمارے آقا و مولیٰؐ ہمارے آنے سے بہت پہلے ہمارے لیے اللہ تبارک تعالیٰ سے کیا کیا کچھ مانگتے رہے ہمارے لیے، اپنے بعد روز قیامت تک آنے والے سب امتیوں کے لیے دینی و دنیاوی بھلائی، فوز و فلاح اور آخرت میں مغفرت و بخشش کی التجائیں کرتے تھے۔ راتوں کو سجدے میں سر رکھ کر ہمارے لیے روتے تھے۔ جو خود سیرت کامل کا نمونہ بن کر ہمارے لیے قدم قدم پر اطاعت کا سامان فراہم کرتے رہے۔ اسوہ حسنہ کی صورت بیش بہا خزانہ ہمارے لیے ودیعت فرماگئے، انہیں اللہ نے قیامت کے دن ہم گناہ گاروں کی شفاعت کرنے کا پروانہ عطا کرتے ہوئے مقام محمود پر فائز کرنے کا وعدہ فرمایا، شفیع الامم کا خطاب کسی اور نبی، رسول کو نہ عطا ہوا۔ ہمارے دلوں میں ان کی محبت پھول میں بسی خوشبو کی مانند بسا رکھی ہے، کون سی امت ہے جو اپنے نبی پر دن میں لاکھوں، کروڑوں بار درودو سلام بھیجتی ہو۔ اللہ نے ان کے ذکر کو ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کہہ کر قرآن پاک میں ذکر مبارک کو بلند کیے رکھنے کا وعدہ فرمایا۔
ہم ان کے قدموں کی دھول، ان کے احسانوں، نوازشوں، مہربانیوں کا حق کیونکر ادا کرسکتے ہیں۔ ان کی محبت و شفقت صرف ہمیں تک محدود نہیں، وہ رحمتہ اللعالمین ہیں جن کی رحمتوں کی بارش میں کل مخلوق عالم بھیگتی چلی آرہی ہے۔ وہ سب کے اپنے تھے۔ سب کے لیے مجسم محبت۔ ان کے اخلاق کا پیمانہ سب کے لیے یکساں تھا۔ اللہ پاک نے ان کے خلق عظیم کو سراہا۔ روئے تاباں کی مسکراہٹ ہر ایک کے لیے تھی۔ اسے اللہ نے اپنے نور کی تابانی بخشی تھی۔ اس پر دیکھنے والوں کو تابندگی اور دلکشی نظر آتی، گویا، روئے درخشاں گلشن بداماں اور سیرت جیسے پھول پہ شبنم، امرت امرت لہجہ، باتیں کرتے تو منہ سے پھول جھڑتے۔ ایسی دل موہ لینے والی شخصیت کے ساتھ ساتھ اللہ نے سادگی کا جوہر اس فراوانی سے عطا کیا کہ شاہ دو جہاں ہوکر بھی سادہ رو، سادہ دل، سادہ لباس، سادہ مزاج تھے، مگر اس سادگی میں بھی وہ دلآویزی وہ رعب وہ عظمت، وہ سطوت اور شان و شوکت کہ بڑے بڑے بادشاہوں کی آنکھیں اعتراف عظمت میں جھک جائیں۔ہم اس شان والے نبی کے امتی بنے، ان پر ہماری جانیں فدا، ہمارا سب کچھ قربان، ہم آج کے دن اس نعمت بے بہا کی عطا کے شکرانے میں کیوں نہ خوشیاں منائیں، گھروں، بازاروں کو سجائیں۔ محفل محفل ان کی شان میں نعتیں پڑھیں، سیرت مبارکہ کے مقدس تذکرے سے ان کی اعلیٰ تعلیمات، قیمتی فرمودات کو دہراکر دلوں میں موجزن محبت کو تازہ کریں کہ اس میں جوش و خروش پیدا ہو۔ محبت کی جولانی اطاعت سے مشروط ہے۔ اطاعت کے جذبے کو اور بڑھائیں، فزوں تر کریں کہ جادہ زندگی میں قدم قدم پر اسوہ حسنہ کی مثال سامنے رکھیں۔ اس پر عمل اور اس کی جزئیات کوحرز جاں بنانے کا عہد کریں، اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے۔ آج کا اظہار محبت جوش اطاعت صرف آج ہی کے لیے مخصوص نہ ہو، روزانہ ان کے ذکر جمیل سے گھر کی فضا کو حسین و جمیل بنائیں، بات بات پر بچوں کو بتائیں، خود عمل پیرا ہوکر دکھائیں کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوٹے سے چھوٹا عمل، کوئی بات، کوئی کام کیسے کرتے تھے، اللہ پاک نے قرآن پاک میں اطیعو اللہ و اطیعو الرسول کی بار بار تلقین فرمائی ہے، انہیں امت کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے، سو محبت اس نمونے کی پیروی کرکے اطاعت کی بھرپور کوشش کی متقاضی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’حضور مقبولﷺ کی اطاعت اللہ کی محبت کے دروا کرتی ہے‘‘ اللہ ہماری محبتوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے، ہمارے قلب و جان کو اطاعت کے جذبے سے سرشار کرکے ہمیں اس قابل بنائے کہ آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہونے کا حق اور شکر ادا کرسکیں۔




.
تازہ ترین