• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مزا تو تب ہے کہ قرضوں کو رائٹ آف کرے ساقی
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک بار پھر سینیٹ کمیٹی کو معاف شدہ قرضوں کی تفصیل دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے ’’قانون کے تحت معلومات دینے کے پابند نہیں، جبکہ سینیٹ کمیٹی نے کہا ہے کہ آئین اور قانون کے تحت تمام ادارے پارلیمنٹ کو معلومات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔‘‘ قرضے لے کر اپنی انتہائی مستحق اشرافیہ کو گرنے سے بچانے کے لئے قرض دینا کوئی کفر تو نہیں کیا، پھر کیوں پارلیمنٹ کو بیچاری اشرافیہ کے معاف شدہ قرضوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے انکار کر دیا، تمام ادارے پارلیمان کے پابند ہیں، ہم صرف اتنا پوچھتے کس حد تک؟ مگر مچھوں کو قومی خزانے سے قرضے دلوائے گئے اور پھر ان کے تمام قرضے اگر معاف کر دیئے گئے تو یہ کیا حکومت کا فرض نہ تھا؟ حکومت کسی کی بھی تھی یہ قرضے دیئے اور رائٹ آف کئے گئے، گرتی ہوئی اشرافیہ کو سنبھالا دینا کیا قومی مفاد میں نہیں اور ؎
قرضہ دلا کے وصولی تو سب کو آتی ہے ساقی
مزا تو تب ہے کہ قرضوں کو رائٹ آف کرے
قرضے لے کر نہ دینے والوں کو قوم کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، ہم اندازے سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایسا کرنا ہرگز آئین و قانون کے تحت ناجائز نہیں، زیادہ سے زیادہ قرضے لینے پر تو ہمیں ورلڈ بینک آئی ایم ایف تعریفی اسناد بھی دے چکے ہیں، یہ عالمی سود خور ساہوکار ادارے کیوں یہ تحقیق نہیں کرتے کہ ان کے دیئے قرضے کہاں خرچ کئے گئے،قوم کو تو ایک عرصے سے معلوم ہے کہ قرضے کہاں جاتے ہیں جو لوٹ کر نہیں آتے مگر وہ بے بس ہے، البتہ ووٹ دیتے وقت وہ اپنے بس میں ہوتی ہے تب ہی اگر اپنے پیسے لٹیروں سے بچا لے تو ان کو ثواب دارین کے ساتھ ترقی و خوشحالی بھی ملے گی، ربیع الاول کا مبارک مہینہ ہے اسٹیٹ بینک نے کھاتہ کھولا ہے تو قرضے معاف کرانے والوں کو گھر پہنچائے ہمارے حکمران اور ارکان اسمبلی معصوم ہیں ان کا نام نہ لے۔
٭٭٭٭
کھل گیا راز تو پُر اسرار خموشی کیسی؟
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کہتے ہیں: مشرف نے اربوں روپے جیب میں ڈالے راز کھلا تو شرمندگی سے کہا بادشاہ نے دیئے۔ شہباز شریف نہایت شریفانہ و حکیمانہ حسِ مزاح رکھتے ہیں کہ ’’کچھ بھی نہ کہا کچھ کہہ بھی گئے اور کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے‘‘ شریف خاندان کی یہ شرافت مسلم ہے کہ جو کمایا زور بازو سے کھایا، اور حکمرانی فقط خدمت کے لئے اختیار کی، اس بے لوث گھرانے کا بچہ بچہ ممنونِ احسان ہے، یہ تو بتا دیا کہ مشرف نے اربوں روپے ’’بادشاہ‘‘ سے لے کر جیب میں ڈالے، تو بحیثیت مسلمان حکمران اب ان پر واجب ہو گیا ہے کہ ان اربوں روپوں کی تحقیق کرائیں اور عوام کو ان کا چوری کا مال برآمد کر کے دکھائیں، کیونکہ قانون سے کوئی بالا تر نہیں، ورنہ ’’بادشاہ‘‘ اس کو مائنڈ کریں گے کہ ان کو بیچ میں کیوں لایا گیا، وہ کسی کو بخشش نہیں دیتے، کیونکہ ہر حکمران قومی خزانے کا امین ہوتا ہے، ہمارے ہاں ہر روز اربوں کھربوں کی خورد برد کے قصے رپورٹ ہوتے ہیں، اور یوں لگتا ہے کہ اس ملک میں دولت کی گنگا بہہ رہی ہے، صرف اشرافیہ ہی اس سے وضو کرتی ہے باقی لوگ ’’بے وضو‘‘ ہیں، اور شاید شاعر نے مشرفانِ قوم ہی کے بارے کہا ہو گا
مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے
ہمیں ہمارے آج کے ہی نہیں ہر دور کے حکمران صرف بریکنگ نیوز دیتے ہیں، چپ کر کے مجرم کو کیفر کردار تک نہیں پہنچاتے، خبریں دینے اور ان کو بارہ مصالحے لگا کر پیش کرنے والوں کی کمی نہیں یارو ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں، اس لئے حکومت خبر نہ دے پیسہ لوٹنے والوں کا تعاقب کرے، حکومت ملک میں سب سے بڑھ کر طاقتور ہوتی ہے اور اگر وہ بھی اپنی طاقت، عوام کی کمزور حالت بہتر بنانے کے کام نہ آئے تو پھر ایسی حکمرانی سے حکم منفی کر کے باقی ماندہ پر گزارہ کیا جائے،
٭٭٭٭
دشنام جو دینگے تو کیا نام نہ ہو گا؟!
اسپائسی کھانے اور اسپائسی گفتگو یہ دو عناصر ہوں تو سمجھیں کہ پاکستان میں ہیں، بُرا نہ منائیں ایک دن گالیاں نہ دینے کا بھی منائیں، وہ دن کتنا پھیکا پھیکا ہو گا اس کے لئے پیشگی معذرت، مگر ہماری نمازیں تب قبول ہوں گی جب مہذب قوموں کی صف میں کھڑے ہوں گے۔ اگر نماز کے بعد بھی گالی پھر سے چل نکلے تو سمجھ لیں کہ نماز ہمارے کردار پر اثر انداز نہ ہوئی، اور عدم قبولیت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے، مسجد سے نکل کر اب گھروں میں آتے ہیں کہ وہاں بڑے، چھوٹوں کے سامنے آغاز کلام گالی سے کرتے اور گالی پر ہی ختم کرتے ہیں، اور اس طرح یہ ’’قومی ورثہ‘‘ نئی نسل کو منتقل ہو جاتا ہے۔ سب تو نہیں لیکن ہماری اکثریت کا مسلک یہ ہے ’’السب فی الکلام کالملح فی الطعام‘‘ (گفتگو میں گالی ایسے ہے جیسے کھانے میں نمک، اس نمکینیٔ گفتار کی اب ہمیں عادت سی ہو گئی ہے، صاحب لوگ ملازم کو آواز دیتے ہیں تو ڈیش اوئے فلانے ادھر آ بات سن! کہہ کر اپنی بات کو طرحدار بناتے ہیں، ہر گھر میں ایک عدد قبلہ والد صاحب بھی ہوتے ہیں اور وہ روانی میں دو مشہور زمانہ گالیاں دینا اپنا مقام کا تقاضا سمجھتے ہیں، اگر بچے بھی ابا حضور کے انداز گفتگو کو اپنا لیں تو ان کو دوش دینا جائز نہیں، ہمارے ہر صوبے میں بقدر توفیق دشنام طرازی کے مظاہر جگہ جگہ دکھائی سنائی دیتے ہیں، اور یہ جو ہم لکھتے ہیں ڈیش۔۔۔ فلاں، رقم فرماتے ہیں، اس سے گالی اور نمایاں اور موثر ہو جاتی ہے ان دنوں ہم ربیع الاول منا رہے ہیں اسوئہ حسنہ کی لاج رکھنے کا امت اہتمام کرے بالخصوص امت کا وہ حصہ جو پاکستان میں مقیم ہے، جو شخص مودبانہ اخلاقی گفتگو کرے اس کو کمزور سمجھا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایل او سی پر ہماری شرافت کو بھارت ہماری کمزوری سمجھتا ہے، شیریں لبی کو غالب نے گالیوں سے تشبیہ دی تھی اور ہم لہک لہک کر یہ شعر سنتے اور سناتے ہیں؎
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھائے بے مزا نہ ہوا
٭٭٭٭
سرخ گلاباں دے موسم وچ پھلاں دے رنگ کالے
....Oپرویز ملک (ن لیگ):ترقی کے لئے انا چھوڑنا ہو گی۔
کیا اب کرپشن کو ’’انا‘‘ کہتے ہیں،
....Oپولیس کی مدد پر سی پی او امین وینس نے ایک شہری کو 50ہزار انعام دیا
کہیں پولیس محکمہ انعامات وا کرامات نہ بن جائے، شہری انعام کی خاطر پولیس کو نکما نہ کر دیں، سی پی او نے بہرحال اچھا کام کیا، اسی طرح شہری پولیس گٹھ جوڑ سے کارکردگی بڑھے گی۔
....Oرانا ثناء اللہ:بلاول، عمران جیسی سیاست نہ کریں،
بلاول رانا صاحب جیسی سیاست کریں، پھر تو کوئی اعتراض نہیں!
....Oصحافیوں کے تحفظ کا بل آئندہ سال:مریم اورنگزیب۔
آئندہ سال میں 27دن باقی رہ گئے ہیں، بل اسی ماہ ہی پیش کر دیا جاتا ؎
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
....Oملازمین کہتے ہیں ٹیلیفون کے محکمے میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد ناکافی ہے،
اس لئے شکایات کے ازالے تک پہنچ ہی نہیں پاتے، مزید نفری کم کرنے کی شکایت بھی کی جا رہی ہے، کوئی محکمہ فروخت کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پاکستانی حدود سے باہر ہو گیاہے حکومت نجی اداروں کو بھی چیک کر سکتی ہے، اس لئے شکایت پر غور کیا جائے،




.
تازہ ترین