• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتہ ہمارےلیےبہت سے دکھ لیے ہوئے تھا،ہمارےملک کے باصلاحیت لوگ ہوائی جہازکے حادثےمیں جاں بحق ہوگئے ، گزشتہ چند سالوںمیں یہ تیسرا حادثہ تھا جس میں ہوائی جہاز اسلام آباد ائرپورٹ کےلیےروانہ ہوئے لیکن ان کے ٹائر اسلام آباد ائر پورٹ کے رن وے کو چھو نہ سکے اور وہ فضاء میں ہی حادثے کا شکار ہوگئے ۔ ہر انسان ہی اہم ہوتا لیکن 7دسمبر کو حادثے کا شکار ہونے والی پروازپی کے 661میں ہمارے بہت ہی قیمتی لوگ سوارتھے ، انجن میں خرابی کے بعد جب پرواز اپنا توازن اور پائلٹ اپنا کنٹرول کھو چکا توپرواز ایک کٹی پتنگ کی طرح اپنی ہی سمت اور رفتار سے لڑھکنے لگی اور یقیناً جہازمیں سوار مسافروں کو اس بے ترتیبی اور غیر متو ا ز ن پر وا ز نے بے چین کر دیا ہو گا۔ جہاز کا تقریباً14ہزار فٹ کی بلندی سے اچانک نیچے کی طرف رخ کرتے ہوئے 7ہزار فٹ کی بلندی تک انتہائی تیز رفتاری سے آنے کا مطلب ہوتا ہے کہ مسا فر کا دل اچھل کر گلے میں آجانا، جہاز کا کریو تو آخری لمحات تک کاک پٹ میں مختلف بٹن اور لیورز سے نبرد آزما ہوتاہے کہ شاید ان کی کوئی حکمت عملی کارگر ثابت ہوجائے، شاید کوئی ایک لمحہ ان کے تجربے کے آگے سرنگوں ہوجائے اور جہاز ایک مرتبہ پھر اپنا توازن برقرار کرتےہوئےپائلٹ کے کنٹرول میں آجائے لیکن آگہی بعض اوقات بہت بڑی قیامت بن جاتی ہے، جب بطور ڈاکٹر آپ کو مریض کے بارے میں معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی زندگی کی آخری ہچکیاں ہیں، یا جہاز کی اڑان اب کنٹرول میں آنے والی نہیں ہے اورپائلٹ اور کاک پٹ کے کریو کےلیے قیامت سے پہلے قیامت ہوتی ہے جب وہ کاک پٹ کی اسکرین سے سامنے کا منظر دیکھ رہے ہوتے ہیں اور پی کے 661کی پرواز جوکے اے ٹی آر 500کا جہا زتھا جس کی لمبائی 23میٹرز اور اونچائی 8میٹرز ہوتی ہے، 18600کلو گرام وزن کے ساتھ پرواز کرتا ہوا یہ جہاز جب 50میٹرز کے ونگز کے ساتھ اڑتا ہوا پائلٹ اور کریوکے سامنے ایک پہاڑی کی طرف بڑھ رہا ہو تو یقیناً موت سے پہلے کی قیامت بڑی ہی تکلیف دہ ہوتی ہوگی اور بدقسمت پرواز پی کے 661کے پائلٹ اور کریونے ساری قیامت دیکھی اور محسوس کی ہوگی ، یقیناً جہازکے مسافروں کوبھی جہاز کی بے ترتیب اور غیر متوازن پروازسے خطرے کااحساس ہوگیا ہوگا اور وہ اپنے ساتھ سفر کرنے والے اپنے پیاروں سے زیادہ اپنے گھر میں ان کا انتظار کرنے والوں کےلیے متفکر ہوںگے وہ مائیں جو اپنے بچوں کو گھروں میں انتظار کرتا چھوڑ آئی تھیں ، مسافر جو اپنے اہل خانہ اور رشتہ داروں کو اپنا منتظر چھوڑ آئے تھے انہیں ان سب کی یاد اور باتیں اپنے ذہنوں میں ریوائنڈ کرتی ستا رہی ہونگی، خاص طور پر ائر ہوسٹس صدف جو اپنے دو معصوم بچوں اور اہل خانہ کےلیے ائر ہوسٹس کا مشکل کام کررہی تھی اسے اپنے سامنے نظر آتی موت سے زیادہ اس بات کا دکھ ہوگا کہ اس کے بچے اس کے بعد کیا کرینگے کون ان کو ماں کا پیار دے گا کون ان کے ماتھے اور گال چوم کر میرے لعل یا میری شہزادی کہے گا، کون ان کی معصوم باتیں سن کر دل ہی دل میں مسکرائے گا اور اس عزم کے ساتھ ان کی پرورش کرے گا کہ یہ بچے بڑے ہوکر میرا سہارا بنیں گے ، موت سے پہلے کی یہ جان لیوا سوچ کتنی تکلیف دہ ہوگی اس کا صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور جہاز جب اپنے پورے پہاڑ جیسے وزن اور رفتار کے ساتھ سامنے والے پہاڑ سے ٹکرایا ہوگا تو ساری فکروں اور سوچوں سے آزاد ان مسافروں نے تو شاید اس بڑھکنے والی آگ کی تپش محسوس نہ کی ہو کیونکہ پہاڑ سے ٹکرانے کے بعد کیا بچا ہوگا لیکن اس آگ کی تپش پورے پاکستان نے اپنے جسموں پر برداشت کی اور وہ دل جو اپنے وطن کیلئے ’’ دل دل پاکستان ‘‘ کہتے ہوئےپرجوش ہوجاتےتھے وہ دل آج رنجید ہ تھے، اللہ تعالیٰ جہاز کے تمام مسافروں کو اپنی رحمت کے وہ تمام انعامات عطا کرے جو شہادت کے بعد وہ دیتا ہے اور وہ ساری غلطیاں اور کوتاہیاں معاف کرے جو بطور انسان ہم سے سرزد ہوجاتی ہیں، ’’دل‘‘ رکھنے والی پوری قوم کی طرف سے مسافروں کیلئے دعا گو ہوں اور خاص طور پر جنید جمشید جو ایک بہترین پاکستانی تھا کو خراج عقیدت بھی پیش کرتا ہوں اور ارباب اختیار سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ جہاںپی آئی اے کے چیئرمین نے حادثےکے بعد استعفیٰ دے کر ملک میں اچھی روایت قائم کی ہے وہاں اگر یہ حادثہ کسی کی غفلت کا نتیجہ ہے تو اسے بھی سزا وار قرار دیا جائے۔اس شد ید دکھ اور غم کے با وجو د دل یہ کہہ رہا ہے۔
ایسی زمیں اور آ سما ں ،اسکے سوا جا نا کہا ں
بڑ ھتی رہے یہ رو شنی ،چلتا رہے یہ کا روا ں
دل دل پا کستان، جا ں جا ں پا کستا ن

.
تازہ ترین