• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ واقعی خود کو دہراتی ہے اور یہ بھی تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا۔ آصف علی زرداری صدر اور سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم پاکستان کے عہدوں پرفائز تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو تین سال کاعرصہ گزر چکا تھا۔ بد عنوانی، مہنگائی،لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کے ہاتھوں ملک اور عوام کا برا حال ہو چکا تھا۔ مخلوط حکومت میں شامل تب کی ناگزیرمتحدہ قومی موومنٹ کے ’سب پر بھاری‘ سیاستدان کا آئے دن اپنے مطالبات منوانے کیلئے حکومت میں آنا جانا جاری تھا۔ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف ملک اور عوام کے دکھ میں ہلکان ہورہے تھے جبکہ عوام بھی کسی مسیحا کے انتظار میں تھے۔ میثاق جمہوریت کا جادو تو سر چڑھ کر بول ہی رہا تھا لیکن عوامی خواہشات کی ترجمانی بس بہت ہو چکا پر اکسا رہی تھی اسلئے میاں نواز شریف نے اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ اور پارلیمانی پارٹی کا اہم اجلاس منعقد کیا۔ صبح سے شام تک طویل مشاورت کی اور بالآخرکیمرےکے سامنے آ کر سیاسی پٹاری سے دس نکاتی اصلاحاتی ایجنڈہ ایک الٹی میٹم کے ساتھ نکالا۔ وہ الٹی میٹم بطور اپوزیشن رہنما جناب نواز شریف نے اس وقت کے منتخب وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو ان الفاظ میں دیا کہ ان کے پاس تین دن کا وقت ہے وہ اس دس نکاتی اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئے ہاں یا ناں کریں۔ اگر وزیر اعظم کا جواب ہاں میں ہوگا تو انہیں مزید پینتالیس دن کی مہلت دی جائے گی کہ وہ ملک کو درپیش مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کے لئےمسلم لیگ ن کے تجویز کردہ نسخہ ہائے کیمیا پر عمل درآمد کریں۔ ان دس نکات میں چونکہ بعض اصلاحات ایسی بھی شامل تھیں جن کےلئے پارلیمنٹ سے قانون سازی ضروری تھی اس لئے پیپلزپارٹی کی حکومت کو یہ بھی باور کرایا گیا کہ درکار قانون سازی بھی دی گئی مہلت میں کرائی جائے جس کے لئے فراخ دلانہ تعاون کی پیشکش بھی کر دی گئی۔ ان دس نکات کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں صرف اتنا ہی ذکر کرنا کافی ہے کہ آخری نکتہ آزاد احتساب کمیشن کے قیام کا تھا جو پاناما کے ہنگامے کے باوجود آج بھی ہنوز دلی دور است کے مصداق عوام کا منہ چڑا رہا ہے۔ خیر بات اسی اصلاحاتی ایجنڈے اور مسلم لیگ ن کے الٹی میٹم کی کرتے ہیں جس کو گیلانی حکومت نے سنجیدگی سے لیا اور اس وقت کے وفاقی وزیرڈاکٹر بابر اعوان کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی جس نے موجودہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کی قیادت میں ن لیگ کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ متعدد بار مشاورتی اجلاس منعقد کئے۔ وقت گزرتا رہا،پینتالیس دن بھی گزر گئے لیکن اس سارے عرصے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے نہ صرف انتہائی سنجیدگی سے مسلم لیگ ن سے مذاکرات جاری رکھے بلکہ انہیں صرف ’انگیج‘ ہی رکھا یہاں تک کہ بات آئی گئی ہوگئی۔ اس مشاورتی عمل کے کچھ عرصہ بعد ہی ڈاکٹر بابر اعوان سے ایک بیٹھک میں جب میں نے اس اصلاحاتی ایجنڈے کے مقاصد کےبارے میںدریافت کیا تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئےجو جواب دیاوہ یہ تھا کہ اصلاحات کے نام پر اصل ایجنڈا وفاقی حکومت پر دباو ڈال کر اپنی مرضی کے افراد کو مختلف عہدوں پر تعینات کرانا تھا۔ اگر کسی کو کوئی شک و شبہ ہو تو اس جواب کی تصدیق آج بھی ڈاکٹر صاحب سے کی جا سکتی ہے۔ اب تاریخ کے الٹا گھومتے اس پہیے پر ایک نظر جو اقتدار کے سنگھاسن پربراجمان ہونے کے بعد عموما دکھائی نہیں دیا کرتا۔ جناب نواز شریف ملک کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں۔ان کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ ن اپنے تیسرے دور اقتدار کے ساڑھے تین سال پورے کر چکی،نشیب و فراز سے گزرتے اہم چیلنجز پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا، ڈگمگاتے لڑکھڑاتے قدم ایک بار پھر مضبوطی سے جم چکے اور بقول اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے اس مضبوطی کا سہرا کافی حد تک کپتان کے سر جاتا ہے۔ ماضی کے صدر آصف علی زرداری دبئی میں مقیم اور وطن واپسی کے لئے کسی مناسب وقت کے انتظار میں ہیں جبکہ اقتدار کی رسہ کشی کے اس کھیل میں اب پاکستان پیپلز پارٹی کا نیا چہرہ بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ انہوں نے بطور پارٹی چیئرمین دو ماہ پہلے سانحہ کارساز کی برسی کے موقع پر وفاقی حکومت کے سامنے چار مطالبات پیش کئے۔ جس طرح میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم کو وارننگ دی تھی اسی طرح بلاول بھٹو نے بھی انہیں الٹی میٹم دیا کہ اگر ستائیس دسمبر تک ان کے مطالبات پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ یہ چار مطالبات تو عوام کو بھی ا زبر ہو چکے کہ پاکستان پیپلز پارٹی قومی سلامتی پر پارلیمانی کمیٹی کا قیام، پی پی کے پاناما بل کی منظوری، سی پیک پر اپوزیشن کی قرارداد پر عمل درآمد اور کل وقتی وزیر خارجہ کا فوری تقرر چاہتی ہے۔ قانون قدرت دیکھیں کہ ان مطالبات پردیگر اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت اور مستقبل کی حکمت عملی تیار کرنے کی ذمہ داری انہی سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں قائم کمیٹی کو سونپی گئی ہے جنہیں جناب نواز شریف نے اپنے مطالبات پر الٹی میٹم دیا تھا۔ جس پاکستان پیپلز پارٹی کو تین دن میں ہاں یا ناں کی مہلت دی گئی تھی اب اسی جماعت کے چیئرمین کے چار مطالبات پر دو ماہ گزرجانے کے باوجود اتنی اہمیت بھی نہیں دی گئی کہ کوئی ایک وزیر ان کے سابق وزیر اعظم یا اس اپوزیشن لیڈر سے رابطہ ہی کر لیتا جنہیں دھرنے کے دوران رات گئے جگا جگا کر مشورے لئے جاتے تھے۔ اب رویہ یہ ہے کہ حکمرانوں کی طرف سے بلاول بھٹو کے چار مطالبات کو سنجیدہ لینا تو دور کی بات کوئی وزیرطنز کرتا ہے کہ انہیں تو معلوم ہی نہیں کہ یہ مطالبات کیا ہیں اور کوئی وزیر مملکت نصیحت کرتی ہیں کہ یہ مطالبات سندھ حکومت کے سامنے رکھے جائیں۔ بعض لیگی رہنما شان بے نیازی کا اظہار کرتے ہیں کہ انہیں میڈیا سے معلومات ملی ہیں جب ان کے سامنے باضابطہ مطالبات پیش کئے جائیں گے تب وزیراعظم صاحب ان پر غور کریں گے لیکن وہ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ان کے رہنما نے بھی دس نکات پر مبنی اپنے مطالبات میڈیا اور پریس کانفرنس کے ذریعے ہی پیش کئے تھے۔ بطور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے تو یہ نہیں کہا تھا کہ ان کے نام چھٹی لکھ کر باضابطہ طور پر انہیں مطالبات پیش کئے جائیں۔ حکمراں جماعت کی طرف سے پیپلز پارٹی کے مطالبات کو نظر انداز کرنے کی ایک اور دلیل یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ چونکہ پانچ چھ ماہ بعد انتخابات کا سال شروع ہوجائے گا اسلئے یہ مطالبات الیکشن میں جانے کی تیاری کا حصہ ہیں۔ حکمراں خود کو جیسے بھی بہلائیں لیکن بلاول بھٹو کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے مستقبل کی حکمت عملی کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں سے رابطے شروع کر دئیے گئے ہیں۔ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی ماہر مسلم لیگ ن کی حکومت کو یہ باور ہونا چاہئے کہ عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات یا پاناما پیپرز کی تحقیقات سے چشم پوشی کی طرح اگر ان چار مطالبات پر بھی بے حسی کا مظاہرہ جاری رہا تو ضروری نہیں کہ قسمت ہر بار آپ پر ہی مہربان ہو۔ سب سے اہم نکتہ جو کسی طور نہیں بھولنا چاہئے کہ اس بار آپ کے مقابل کوئی اناڑی نہیں بلکہ احتجاج کے کھیل کی پرانی کھلاڑی پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔




.
تازہ ترین