• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ممتاز امریکی جریدہ ’’دی نیشن‘‘ لیفٹ کے لبرل حلقوں کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس میں امریکی سیاست اور مسائل پر تحقیقی، تنقیدی ، تجزیاتی اور مضامین چشم کشا اور پرکشش ہوتے ہیں۔ ٹرمپ،کلنٹن انتخابی مہم میں اس جریدےمیں لکھنے والوں نے ٹرمپ کی بھرپور مخالفت اور ہیلری کلنٹن کی حمایت کی اور اب بھی وہ منتخب صدر ٹرمپ اور ان کی نامزد کردہ انتہائی کنزرویٹو کابینہ اور عہدیداران کی ٹیم پر مختلف حوالوں سے تنقید کررہے ہیں لیکن یہ بات بھی خوب ہے کہ تمام فکری اور سیاسی اختلافات کے باوجود امریکہ کے قومی مفادات کے حصول میں متفق نظر آتے ہیں۔ اپنے تازہ شمارے میں ’’دی نیشن‘‘ نے ’’نئی امریکی خارجہ پالیسی کی جانب‘‘ کے عنوان سے اپنے چھ ماہرین کی تحریروں پر مشتمل ایک مشترکہ مضمون شائع کیا ہے جس میں کنزرویٹو ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے تجزیاتی انداز میں ایسے مفید مشورے دئیے ہیں جو سخت گیر ری پبلکن ٹرمپ کے لئے بھی ایک ایسی فارن پالیسی کی تشکیل کے لئے رہنمائی کرتے ہیں جو موجودہ عالمی حالات میں ان کو امریکی قومی مفادات کے حصول میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ بلکہ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نیو کنزرویٹو حامیوں اور ان نظریاتی مخالفین یعنی ’’لیفٹ لبرل‘‘ کے دانشوروں کے درمیان عالمی حالات کے بارے میں ان زمینی حقائق پر کچھ اتفاق رائے نظر آتا ہے کہ (1) دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی ملکوں کو امریکی اتحاد کی برتری میں اکٹھا کرکے اور پھر سرد جنگ کے ذریعے سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد امریکہ نے جو واحد عالمی سپر پاور (UNIPOLAR) کا درجہ حاصل کیا تھا وہ عراق، افغانستان، شام کی جنگوں اور مشرق وسطٰی کو تباہ کرنے کی نذر ہوگیا۔ اب دنیا میں اور قوتیں بھی ابھر آئی ہیں جن کو برداشت کرنا اورمریکہ کا قبول کرنا لازمی ہے۔
(2) لہٰذا ’’یونی پولر‘‘ کی بجائے دیگر عالمی اور علاقائی طاقتوں کے وجود کو تسلیم کرکے (MULTI POLAR) دنیا کے نظام کو قبول کرنا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ جس میں مختلف اقوام کی تواریخ، روایات، کلچر، سیاسی کلچر، ترجیجات اور نقطہ نظر کا احترام ضروری ہے۔ آئیڈیل ازم کو حقائق کی نقاب پہنانا درست نہیں۔
(3)ہمیں اوباما دور کی جنگوں کے پھیلائو اور نقصانات کا احساس کرتے ہوئے اس سے باہر نکل آنا چاہئے حالانکہ ڈیموکریٹ اوباما کو افغانستان اور عراق کی جنگیں ری پبلکن صدر جارج بش سے ورثہ میں ملی تھیں البتہ ان جنگوں کو لیبیا اور شام تک پھیلانے اور ڈرونز کی غیراعلانیہ جنگ کو طول دینے کی حکمت عملی اوباما دور میں اختیار کی گئی۔
(4) بعض دانشور جو نئی امریکی خارجہ پالیسی میں ’’ملٹی پولرزم‘‘ کے حامی ہیں وہ روس کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کا ضرورت سے زیاہ نرم گوشہ اور اور خیر خواہی کے اظہار، پیوٹن سے قربت کو بھی امریکہ کی نئی فارن پالیسی میں ’’ملٹی پولر ازم‘‘ کی ابتدا کا نشان قرار دے رہے ہیں۔
لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل سیکورٹی، دفاع، انٹیلی جنس اور امریکی خارجہ پالیسی چلانے کے لئے جن انتہا پسند، سخت گیر حامیوں کو نامزد کیا ہے کیا وہ ’’ملٹی پولر ازم‘‘ کی حقیقت کو قبول کرکے ایسی نئی حکمت عملی اپنا سکیں گے؟ اس بارے میں ٹرمپ کے نامزد کردہ وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور دیگر معاون ٹیم کی تقرری کی سینیٹ سے منظوری کے بعد ہی واضح ہوسکے گا کہ وہ کس حد تک لیف لبرل دانشوروں کے بیان کردہ نکات کو اپنی خارجہ پالیسی میں کس حد تک اور کس طرح سموتے ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ واحد عالمی سپرپاور کے طور پر امریکی برتری کا دور یعنی ’’یونی پولر ازم‘‘ اب ’’ملٹی پولر ازم‘‘ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ دنیا ’’ملٹی پاور سینٹرز‘‘ کا وہ روپ دھار رہی ہے جس میں کوئی بھی ایک ’’ایکٹر‘‘ من مانی نہیں کر پائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ اور ان کی ٹیم ’’امریکہ کو دوبارہ گریٹ‘‘ بنانے کے نعرے کو کیسے اور کتنی عملی شکل دے پاتے ہیں۔ امریکی انتخابات میں روس کی جانب سے مداخلت امریکی جمہوریت اور برتری کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج یوں ہے کہ دنیا کے سامنے یہ معاملہ آگیا ہے ورنہ ہیکنگ تو ایک عرصے سے جاری ہے۔ کبھی چینی ہیکروں کی جانب سے امریکی کارپوریشنوں کے ڈیٹا کی ہیکنگ، کبھی گمنام اور کبھی روسی اور دیگر ہیکروں کے بارے میں خبریں شائع ہوئیں بحث اور چند روز بعد معاملہ ٹھنڈا ہوگیا۔ ظاہر ہے امریکی ہیکرز بھی تو مہارت رکھتے ہوں گے جس کی حقیقت دوسرے ہیکرز جانتے ہوں گے۔ یہ ’’ہیکنگ‘‘ بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں بغاوتوں، مارشل لاء، ہنگاموں اور آمریت قائم کروانے میں صرف ایک ہی پاور کا ہاتھ نظر آتا ہے جو منتخب اور سویلین حکومت کی جگہ کئی کئی سال تک آمروں کو اقتدار میں لاتا رہا ہے چلی، متعدد افریقی ممالک، خود ہمارے پاکستان اور ایشیائی ممالک کی سیاسی تاریخ اس حقیقت کا ثبوت ہے۔ اب روس اور چین بھی محدود انداز میں ’’پاور سینٹرز‘‘ کے طور پر ابھر آئے ہیں دونوں نے اپنے لئے ایک نفسیاتی اور عالمی سیاسی ماحول بھی قائم کرلیا ہے۔ امریکہ میں بھارتی لابی کو ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ صدارت سنبھالنے کا انتظار ہے تاکہ وہ امریکی حمایت سے خطے میں درپیش رکاوٹوں کا کوئی حل نکال سکیں۔
ملٹی پولر ورلڈ یعنی ’’ملٹی پاور سینٹرز‘‘ کا رجحان جہاں پاکستان کے لئے مفید ہے وہاں بھارت کو بھی یہ قبول تو ہوگا اور ایک ہی خطے میں دو پاور سینٹرز یعنی چین اور بھارت کیسے ایڈجسٹ ہوں گے؟ البتہ ٹرمپ کی نئی فارن پالیسی اور موجودہ عالمی صورت حال کے تناظر میں پاکستان کو اپنی فارن پالیسی کو بھی ایڈہاکزم اور صرف امریکہ پر انحصار اور اس کی خواہشات کی تکمیل کے حصار سے بھی باہر نکلنا ہوگا۔ (6) امریکی مصنفین کے مشترکہ مضمون میں ایک مصنف پیٹرک لارنس نے کیا خوب لکھا ہے کہ فارن پالیسی کی تشکیل میں ’’عزم، مقصد اور منزل کا تعین انتہائی لازمی ہے۔ بانی پاکستان نے ایک باعزت اور مقتدر آزاد پاکستانی قوم کا عزم بیان کیا لیکن ان کے بعد کوئی بھی حکمراں خارجہ پالیسی میں نہ تو عزم نہ ہی مقصد اور نہ ہی منزل کے عوامل شامل کرسکا بلکہ اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے دوسروں کی تابعداری کو اپنی خارجہ پالیسی کا رہنما اصول بناکر عمل کیا گیا۔ کبھی اپنے ہاں خفیہ اڈے بنوائے گئے تو کبھی دوسروں کے ایجنڈے کو اپنا ایجنڈہ قرار دیکر ہم نے جنگیں لڑ کر اپنا ملک ہی تباہ کر ڈالا۔ کبھی ہم نے امریکیوں کے ہرحکم کی تعمیل کی تو کبھی ہم امریکی بے وفائی سے پریشان ہوکر چین سے مدد اور تعاون مانگنے لگے۔ کیا خارجہ پالیسی کا مقصد اور منزل یہی تھی؟ سقوط ڈھاکہ کے وقت پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو ابھی اپنی خارجہ پالیسی کا عزم ایٹمی پاکستان، مقصد تیل کے وسائل والے ممالک کا تعاون اور منزل خوشحال اور آزاد پاکستان کے نوک پلک ہی سیدھے کرنے میں مصروف اورفوجی قیدیوں کی واپسی میں مصروف تھے کہ بیرونی خواہشات کی تعمیل میں ان کا تختہ الٹ کر انہیں موت کی نیند سلا دیا گیا۔ آئیے نئے حالات میں عزم، مقصد اور منزل کا تعین کرکے نئی خارجہ پالیسی مرتب کریں۔



.
تازہ ترین