• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹیکسٹائل ملکی معیشت کا ایک اہم سیکٹر ہے جس کا ملک کی مجموعی 25ارب ڈالر کی ایکسپورٹ میں 55فیصد (14ارب ڈالر) اور جی ڈی پی میں 8فیصد حصہ ہے جبکہ یہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 38فیصد ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کپاس کی پیداوار میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے جس کی سالانہ کاٹن کی پیداوار 13سے 14ملین بیلز ہے لیکن گزشتہ دو تین سالوں سے ٹیکسٹائل سیکٹر مسلسل بحران کا شکار ہے۔ یورپ سے ڈیوٹی فری جی ایس پی پلس ایکسپورٹ کی سہولت ملنے کے باوجود ملکی ایکسپورٹ 14ارب ڈالر سے کم ہوکر 12ارب ڈالر تک گرچکی ہے، اسی طرح مجموعی ایکسپورٹس 25ارب ڈالر سے کم ہوکر 20ارب ڈالر پر آگئی ہے، بے شمار ٹیکسٹائل صنعتیں بند ہوچکی ہیں جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو بینکوں کے دیئے گئے قرضوں میں سے 27فیصد قرضے نادہندہ ہوچکے ہیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کے اسی بحران کے پیش نظر گزشتہ دنوں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل کے چیئرمین محسن عزیز نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی میں گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرہ اور تمام کمرشل بینکوں کے صدور کے ہمراہ ایک اہم میٹنگ منعقد کی جس میں سینیٹر سلیم مانڈوی والا، سینیٹر خوش بخت شجاعت، سینیٹر نسرین جلیل، سینیٹر نہال ہاشمی اور سینیٹر ہری رام کے علاوہ پاکستان بھر کی ٹیکسٹائل صنعتوں کے مالکان نے بھی شرکت کی جبکہ فیڈریشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بینکنگ، کریڈٹ اینڈ فنانس کے چیئرمین کی حیثیت سے مجھے بھی میٹنگ میں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔
میں خود ٹیکسٹائل سیکٹر سے تعلق رکھتا ہوں اور وزیراعظم کے مشیر برائے ٹیکسٹائل کی حیثیت سے ملک کی پہلی ٹیکسٹائل پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرچکا ہوں۔ میں نے اجلاس کے شرکا کو ٹیکسٹائل صنعت کے موجودہ بحران کے اسباب اور اس کے فوری حل کیلئے تجاویز دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں پیداواری لاگت میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے ملکی ٹیکسٹائل صنعت غیر مقابلاتی ہوتی جارہی ہے جس کا اندازہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں کمی اور بے شمار ٹیکسٹائل ملوں کے بند ہونے سے لگایا جاسکتا ہے جبکہ قرضوں کی بروقت ادائیگی نہ کرنے کے باعث بڑی تعداد میں ٹیکسٹائل صنعتیں بینکوں کی نادہندہ ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے بینکوں کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو دیئے گئے قرضوں کی نادہندگی میں اضافہ ہوا ہے اور بینکوں نے ٹیکسٹائل سیکٹر کی نادہندہ کمپنیوں کی قرضے کی سہولتیں ختم کردی ہیں جس کی وجہ سے بے شمار ٹیکسٹائل ملز بیمار صنعتوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ اجلاس کے دوران بینک آف پنجاب کے صدر نعیم الدین خان نے بتایا کہ ان کے بینک کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو مجموعی 66ارب روپے کے قرضوں میں سے 23ارب روپے کے قرضے نادہندہ ہوچکے ہیں۔ حبیب بینک کے صدر نعمان ڈار نے بتایا کہ ان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو دیئے گئے قرضوں میں سے 27فیصد قرضے نادہندہ ہوچکے ہیں۔ یو بی ایل کے کارپوریٹ ہیڈ منصور خان نے بتایا کہ ان کے بینک کے 58ارب روپے کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو دیئے گئے قرضوں میں سے تقریباً 23فیصد یعنی 14ارب روپے کے قرضے نادہندہ ہوچکے ہیں۔ نیشنل بینک کے صدر اقبال اشرف نے بتایا کہ ان کے بینک کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو دیئے گئے 58ارب روپے کے قرضوں میں سے 23فیصد یعنی 14ارب روپے کے قرضے نادہندہ ہوچکے ہیں۔ اس موقع پر اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر سعید احمد نے بتایا کہ بینکوں کے ٹیکسٹائل سیکٹر سمیت مختلف شعبوں کے مجموعی 728ارب روپے کے قرضوں میں اب تک 198ارب روپے کے قرضے نادہندہ ہوچکے ہیں جو 27فیصد بنتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1990سے 2015کے دوران مجموعی طور پر 431ارب روپے کے قرضے معاف کئے جاچکے ہیں۔
یہ اعداد و شمار اور بینکوں کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو دیئے گئے قرضوں میں تیزی سے نادہندگی میں اضافہ اجلاس میں موجود ہر شخص کیلئے باعث تشویش تھا جبکہ ٹیکسٹائل ملوں کے مالکان کا اصرار تھا کہ ان کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کرکے ان کا نام CIBرپورٹ سے نکال کر ان کی ورکنگ کیپٹل سہولتیں بحال کی جائیں بصورت دیگر ان کی صنعتیں بھی بند ہوجائیں گی جس پر گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرہ نے کہا کہ بینکوں کے نادہندہ قرضے دراصل بینکوں کے کھاتے داروں کی رقوم ہیں جو ہر صورت ادا کرنی ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کے بیمار صنعتوں کی بحالی کے سرکولر 29کے تحت معاف کئے گئے قرضوں کی ابھی تک انکوائریاں جاری ہیں لہٰذا بینک صرف ایسی صنعتوں کے نادہندہ قرضوں کی ری شیڈولنگ کرنے کیلئے تیار ہیں جو اپنی بیمار صنعتوں میں ایکویٹی کی مد میں نئی سرمایہ کاری کریں۔ میں نے گورنر اسٹیٹ بینک اور مختلف بینکوں کے صدور سے درخواست کی کہ ایسی ٹیکسٹائل ملز کے مالکان جو صحیح معنوں میں اپنی صنعتیں چلانا چاہتے ہیں، کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کرکے ان کی ورکنگ کیپٹل سہولتیں بحال کی جائیں جس پر گورنر اسٹیٹ بینک اشرف وتھرہ نے قرضوں کی ری شیڈولنگ کیلئے اسٹیٹ بینک کا سینئر فوکل پرسن مقرر کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ قرض نادہندہ ٹیکسٹائل ملوں کی ری شیڈولنگ کیلئے پوری کوشش کریں گے۔
گزشتہ سال فروری میں، میں نے وزیراعظم اور کابینہ کے اہم وزراء کو ملکی ایکسپورٹس میں کمی پر وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ایک پریذنٹیشن دی تھی جس میں بتایا تھا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے بحران کی وجہ ہماری پیداواری لاگت میں اضافہ، سیلز ٹیکس ریفنڈ کی عدم ادائیگی، ایکسپورٹ پر بلاواسطہ ٹیکسز، علاقائی مقابلاتی ممالک کے مقابلے میں بجلی و گیس کے مہنگے نرخ، کاٹن کی پیداوار میں مسلسل کمی ہے۔ پاکستان کو جب یورپ سے ڈیوٹی فری جی ایس پی پلس کی سہولت ملی تھی تو بھارت نے اپنے ایکسپورٹرز کو 8فیصد ریبیٹ دیا تھا جس کی وجہ سے پاکستانی ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی مقابلاتی سکت بری طرح متاثر ہوئی۔
میں نے وزیراعظم، وزیر خزانہ اور وزیر تجارت کو تجویز دی تھی کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر ٹیکسٹائل ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جائے جس پر وزیراعظم اور وزیر خزانہ نے کراچی میں ممتاز ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز سے ملاقات کے دوران اُنہیں ریلیف پیکیج دینے کا وعدہ کیا تھا مگر اعلان میں تاخیر کے باعث ٹیکسٹائل بحران مزید گمبھیر ہوتا چلا گیا تاہم یہ خوش آئند بات ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے 10جنوری کو ٹیکسٹائل اور دیگر ایکسپورٹرز کیلئے 180ارب روپے کے ریلیف پیکیج میں یارن ایکسپورٹ پر 4فیصد، فیبرک ایکسپورٹ پر 5فیصد، ہوم ٹیکسٹائل پر 6فیصد، گارمنٹس پر 7فیصد اور دیگر ایکسپورٹس مصنوعات پر ریبیٹ دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ کاٹن، پولیسٹر یارن اور ٹیکسٹائل مشینری پر سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کا خاتمہ شامل ہے۔ 30ماہ کے مدت کے اس پیکیج میں تقریباً 80ارب روپے ٹیکسٹائل صنعت کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔ پیکیج میں ایکسپورٹرز کیلئے یہ شرط ہے کہ انہیں آئندہ مالی سال جون 2017سے جون 2018تک اپنی ایکسپورٹس میں 10فیصد اضافہ کرنا ہوگا جس سے ملکی ایکسپورٹس میں تقریباً 3ارب ڈالر سالانہ کا اضافہ متوقع ہے۔ ٹیکسٹائل کے بحران کو دور کرنے کیلئے حکومت کو ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ذریعے کاٹن کے نئے بیج متعارف کرانا ہوں گے جن کی فی ایکڑ پیداوار زیادہ ہو۔ پانچ چھ سال قبل بھارت کی کاٹن کی سالانہ پیداوار 18ملین بیلز تھی لیکن کاٹن کے جدید بیجوں کے استعمال سے بھارت نے اپنی کاٹن کی پیداوار دگنی 36ملین بیلز تک پہنچادی ہے۔ پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کے صنعتکاروں سے بھی میری درخواست ہے کہ وہ حکومتی سبسڈی پر انحصار کرنے کے بجائے ویلیو ایڈیشن کرکے اپنی نئی مصنوعات عالمی مارکیٹوں میں متعارف کرائیں تاکہ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کو عالمی مارکیٹ میں مقابلاتی بنایا جاسکے۔

.
تازہ ترین