• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
20 جنوری 2017ء کو دنیا کے انتہائی طاقت ور منصب پر ایک انتہائی متنازع شخص فائز ہو گا ۔ یعنی ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے نئے صدر کا حلف اٹھائیں گے ۔ وہ ایک ایسے وقت پر حلف اٹھا رہے ہیں ، جب عہد نو ایک ’’ ٹرننگ پوائنٹ ‘‘ پر ہے ۔ ہر چند کہیں کہ یہ ’’ یونی پولر ورلڈ نہیں ہے ۔ مگر یہ آج بھی یونی پولر ورلڈ ہے ۔ اگرچہ نئی عالمی طاقتیں ابھر رہی ہیں لیکن وہ مرحلہ ابھی نہیں آیا کہ امریکہ کی واحد سپر پاور والی حیثیت کو اس طرح چیلنج کیا جا سکے ، جس طرح سرد جنگ کے زمانے میں کیا جاتا تھا اور عالمی سطح پر دو بلاکس کی وجہ سے طاقت کا توازن برقرار تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں موجودگی سے دنیا خصوصاً تیسری دنیا بشمول اسلامی ممالک پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
رخصت ہونے والے امریکی صدر باراک اوباما نے ، جن کا تعلق امریکی ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہے ، اپنے الوداعی خطاب میں یہ دعویٰ کیا کہ 2008 ء کے مقابلے میں ، جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تھا ، آج امریکہ ایک بہتر اور مضبوط ملک ہے لیکن انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ امریکی معاشرے میں نسل پرستی آج بھی ایک تقسیم کرنے والی طاقت ہے ۔ انہوں نے انتہائی فخر کے ساتھ اس بات کا بھی کریڈٹ لیا کہ انہوں نے امریکی مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کو مسترد کیا ۔ صدر باراک اوباما کا امریکہ کے داخلی حالات پر یہ انتہائی فکر انگیز تجزیہ تھا ۔ خارجی دنیا میں امریکی کردار کے حوالے سے صدر باراک اوباما نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیوں کا ذکر کیا اور کہاکہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور شام و عراق میں داعش کے خلاف اتحادی فورسز کی کارروائیاں امریکہ کی بڑی کامیابیاں ہیں جبکہ کیوبا سے تعلقات کی بحالی بھی ایک مثبت اقدام تھا ۔ صدر اوباما کا الوداعی خطاب ان کے 8 سالہ دور حکومت کو سمجھنے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے بارے میں دنیا کے ترقی پسند حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ترقی پسند سیاسی جماعت ہے اور ری پبلکن پارٹی کی طرح امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ’’ حاشیہ بردار ‘‘ نہیں ہے لیکن صدر باراک اوباما کا 8 سالہ دور حکومت ایسا تھا ، جب ڈیموکریٹک پارٹی بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی جنگی جنون والی سامراجی پالیسیوں میں نہ صرف الجھی رہی بلکہ ان پالیسیوں پر جارحانہ انداز میں عمل بھی کرتی رہی ۔ صدر اوباما کے دور میں کیوبا کے ساتھ امریکہ کے سفارتی تعلقات کی بحالی ایک ایسا اقدام ہے ، جسے دنیا کے امن اور ترقی پسند حلقے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ 1959 ء سے یہ تعلقات منقطع تھے ، جب کیوبا میں فیڈل کاسترو اور دیگر انقلابیوں نے اقتدار سنبھالا تھا لیکن تیسری دنیا اور عالم اسلام میں ڈیموکریٹک پارٹی کیلئے جو نرم گوشہ تھا ، وہ حالیہ امریکی پالیسیوں کی وجہ سے باقی نہ رہا ۔ میری دانست میں مشرق وسطیٰ خصوصاً عراق ، شام ، مصر ، تیونس ، لیبیا کے ساتھ ساتھ افغانستان اور پاکستان میں جو تباہی و بربادی ہوئی ، اس کے ذمہ دار باراک اوباما ہیں ۔ امریکی پالیسیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور جنوب مغربی ایشیا کا استحکام اور امن تہس ہو گیا اور مستقبل قریب میں بھی یہاں حالات بہتر ہونے کی امید نہیں ہے ۔
امریکی عوام سمیت پوری دنیا کے لوگوں کو صدر باراک اوباما سے امیدیں وابستہ تھیں ۔ ان کی کامیابی سے لوگ تبدیلی کے سحر میں آ گئے تھے ۔ ان کی کامیابی سے یہ تاثر دیا جانے لگا تھا کہ 1960 ء کے عشرے میں سیاہ فام امریکیوں نے شہری حقوق کیلئے جو تحریک شروع کی تھی ، وہ اب کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہے ۔ دنیا ان کو سیاہ فام امریکی رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے روپ میں دیکھ رہی تھی اور یہ سمجھ رہی تھی کہ دنیا میں تبدیلی آئے گی اور امریکہ کا سامراجی کردار کسی حد تک کم ہو گا لیکن ایسا نہ ہوا ۔ باراک اوباما ایک ایسے دور میں دو مدتوں کیلئے صدر رہے ، جب امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور تھی ۔ ان کے پیش رو دنیا میں نیا امریکی ورلڈ آرڈر نافذ کر چکے تھے اور سوشلسٹ بلاک ختم ہونے کے بعد انہوں نے سیاسیات کے امریکی پروفیسر سیموئیل ہیٹنگ ٹن کے تہذیبوں کے تصادم کے نظریہ کو بنیاد بنا کر عالم اسلام کو اپنا دشمن قرار دیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلم دنیا میں تباہی و بربادی کا کھیل شروع کر دیا ۔ تہذیبوں کے تصادم والے نظریہ نے امریکی معاشرے میں ایک نئی قسم کی نسل پرستی کو جنم دیا اور ڈیمو کریٹک پارٹی بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کے جال میں مکمل طور پر پھنس گئی ۔ امریکی نیو ورلڈ ایسا عہد ہے ، جس نے دنیا کو تہذیبوں میں مصنوعی طور پر تقسیم کیا اور تاریخ کی بدترین خونریزی ہوئی ۔ سب سے زیادہ خونریزی مسلم ممالک میں ہوئی ۔ باراک اوباما اس عہد میں وہ کچھ نہ کر سکے ، جو ایک سیاہ فام اور ڈیمو کریٹ صدر سے دنیا توقع کر رہی تھی ۔
جب باراک اوباما نے امریکی صدر کا منصب سنبھالا تھا تو دنیا کچھ مختلف تھی ۔ امریکہ کی دنیا پر مکمل بالادستی تھی ۔ دنیا اس کے اشاروں پر چل رہی تھی اور کرہ ارض کے کچھ خطے دوزخ بنے ہوئے تھے ۔ امریکہ کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔ اب دنیا قدرے مختلف ہے ۔ روس دوبارہ والڈ سپر پاور کے طور پر ابھر رہا ہے ۔ چین دنیا پر اپنی اقتصادی بالادستی قائم کر چکا ہے اور وہ سپر پاور کے طور پر خود کو منوا رہا ہے ۔ ایشیا ء میں معاشی ترقی کا ایک نیا عہد شروع ہو رہا ہے ۔ افریقہ بھی کروٹ لے رہا ہے ۔ لاطینی امریکہ میں نئے اقتصادی بلاکس بن رہے ہیں ۔ علاقائی اور عالمی سطح پر نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ۔ دنیا کے ہر خطے میں امریکی بالادستی کیلئے خطرات پیدا ہو گئے ہیں ۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’’یونی پولر ورلڈ‘‘ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ امریکی معیشت میں مقابلے کی سکت نہیں رہی ۔ ایشیاء اور یورپ کی معیشتوں نے امریکہ کی غیر معاشی برتری کے اثرات بھی ختم کر دیئے ہیں ۔ امریکی بالادستی اور دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے والا نظام کمزور پڑ رہا ہے
سب سے اہم بات یہ ہے کہ تہذیبوں کے تصادم والے نظریے نے سب سے زیادہ امریکی معاشرے کو کمزور اور منتشر کیا ہے ۔ صدر باراک اوباما یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کو مسترد کر دیا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکی معاشرے میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک نے سماجی رویے کے طور پر لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔ سیاہ فام لوگوں کے خلاف نسلی منافرت میں بھی پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔باراک اوباما کا یہ کہنا درست ہے کہ نسل پرستی آج بھی امریکہ کو تقسیم کرنے والی طاقت ہے ۔ اسکے ساتھ ساتھ امریکی معیشت عالمی مسابقت میں انتہائی نچلی سطح پر ہے اور امریکہ کی عالمی حاکمیت کا اثر مسلسل کم ہو رہا ہے ۔
ان حالات میں 20جنوری 2017ء کوری پبلکن پارٹی کے انتہائی تنگ نظر ، دائیں بازو کی سوچ کے حامل اور انتہائی متنازع صدر ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھا رہے ہیں ۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ عالمی محاذ پر شکست کے احساس سے دوچار ہے ۔ وہ ٹرمپ جیسی غیر متوازن شخصیت کو زیادہ جارحانہ انداز میں استعمال کر سکتی ہے ۔ باراک اوباما کا دور خراب تھا لیکن ٹرمپ کا دور مزید خراب نظر آ رہا ہے۔


.
تازہ ترین