• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کے طور پر 20جنوری کو اپنے عہدہ صدارت کا حلف اٹھانے سے قبل ہی اپنے ٹوئٹرز کی شعلہ بیانی، کابینہ کے لئے متنازع نامزدگیاں اور بیانات و اقدامات کے ذریعے ایک تاریخی ہیجان پیدا کرچکے ہیں۔ امریکہ کے داخلی محاذ پر ٹرمپ کے انتخابی وعدے کے مطابق صدر اوباما کے نافذ کردہ ہیلتھ کیئر پروگرام کو منسوخ کرنے کے لئے ری پبلکن اکثریت والی نئی امریکی کانگریس کے دونوں ایوان منظوری دے چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے دستخط ہوتے ہی 30ملین امریکی شہریوں کو ہیلتھ کیئر فراہم کرنے والا اوباما کیئر پروگرام منسوخ ہوجائے گا۔ امریکہ کے داخلی محاذ پر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹرز کے بھرپور استعمال کی عادت نے بہت سے تنازعات کو جنم دیا ہے۔ شہری آزادیوں اور سیاہ فام امریکیوں کے لئے مساویانہ سلوک و حقوق کی تحریک کے قائد مارٹن لوتھر کنگ کے ہمراہی کانگریس مین جان لوئیس امریکہ بھر میں اپنی خدمات کے باعث احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ ڈیموکریٹ سیاہ فام جان لوئیس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن پر تنقید کی تو ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر کے ذریعے اتنا تلخ جواب دیا کہ ایک درجن سے زائد اراکین کانگریس نے بھی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹرمپ کے صدارتی حلف برداری کی تقریب کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ تنازعات اور کشیدگی کے ہجوم میں ٹرمپ اپنی حلف برداری کا آغاز کررہے ہیں۔ خود ری پبلکن پارٹی کے بعض ممتاز قائدین ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالف ہیں۔ سینیٹرز جان مکین، سینیٹر لنڈ سے گراہم بھی ان مخالفین میں شامل ہیں۔ کانگریس مین جان لوئیس کے بیان پر ٹرمپ کے ٹوئٹر ریمارکس نے ایسا ماحول پیدا کردیا ہے کہ ایک درجن سے زائد اراکین کانگریس جن میں گوری نسل کے بعض ارکان بھی شامل ہیں نے بھی حلف برداری تقریب میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔ بروکلین کے پاکستانی آبادی والے علاقے کی ڈیموکریٹ رکن کانگریس ایورٹ کلارک، جیری نیڈلر بھی انکار کرنے والوں میں شامل ہیں۔ مارٹن لوتھر کنگ ڈے کی تعطیل کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ کے توہین آمیز ٹوئٹر پیغام نے جان لوئیس اور نسلی مساوات اور شہری آزادیوں کے حامیوںکو مشتعل کرکے ناموافق صورتحال پیدا کردی ہے۔ جان لوئیس نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جائز امریکی صدر ماننے سے بھی انکاری ہیں۔ حلف برداری کے روز واشنگٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت اور حمایت میں مظاہروں کی بھی تیاریاں ہیں اور خود ٹرمپ کے حامی معاونین خاموشی سے ٹرمپ پر زور دے رہے ہیں کہ ٹرمپ اپنے ٹوئٹرز پیغامات کو کنٹرول کریں۔ اسی ہفتے کے اختتام تک ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھاکر عہدہ صدارت سنبھال چکے ہوں گے۔ کیا ٹرمپ مزید تنازعات کا الجھائو پیدا کریں گے یا خود کو پوری امریکی قوم کا صدر تسلیم کروانے کی کوشش کریں گے؟ یہ ابھی سامنے آنا باقی ہے۔ امریکی قوم فی الحال تو ایک ایسی عجیب صورتحال کا شکار ہے جہاں ماضی کے ریکارڈ اور روایات سے مختلف اور تنائو کے ماحول میں امریکی صدر کی حلف برداری ہورہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مزاج اور موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں ان کی ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹر پیغامات اور ہدایات نے امریکی فارن پالیسی کے میدان میں بھی بعض منفرد چیلنجز کو جنم دیا ہے ٹرمپ کی ایک ہدایت ملاحظہ ہو کہ ایسے تمام سفیر اور دیگر سفارتکار جن کی تقرریاں صدر اوباما نے سیاسی بنیادوں پر کی تھیں وہ سب 20جنوری کی نصف شب کے بعد سبکدوش ہیں۔ یہ درست ہے کہ سیاسی بنیادوں پر تقرری پانے والے سفارتکار متعلقہ حکومت کے ساتھ ہی سبکدوش ہوجاتے ہیں لیکن سبکدوشی اور وطن واپسی کے لئے ’’رعایت کا وقفہ‘‘ گریس پیریڈ کا معمول ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 188امریکی سفیروں میں سے تقریباً 30فیصد اسامیوں پر صدر اوباما نے سیاسی تقرریاں کی تھیں میرے اندازے کے مطابق خصوصی نمائندہ برائے افغانستان اور پاکستان رچرڈ رولسن کی بھی صدر اوباما نے سیاسی تقرری کی تھی۔ اسی طرح بھارت میں امریکی سفیر رچرڈ ورما بھی سیاسی تقرری پر تھے۔ ٹرمپ کی ہدایت کے مطابق یہ دونوں سفیر اور دیگر کم از کم 45پوزیشنوں پر فائز سفارتکار اسی ہفتے فارغ اور یہ عہدے نئی تقرری تک خالی رہیں گے۔ یہ تو تقرریوں اور انتظامی امور کی صورتحال ہے لیکن امریکی خارجہ پالیسی ایجنڈے میں بھی اچانک بڑی تبدیلی کی توقعات یوں ہیں کہ 1۔امریکی پابندیوں کے شکار روس کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ تعلقات کو بالکل دوسری سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔ جس سے یورپ اور ایشیائی ممالک میں اس کے اثرات ہوں گے۔ روس پر سے پابندیاں ہٹا کر امریکہ ٹرمپ، پیوٹن خیر سگالی اور کسی باہمی ڈیل سے تو یورپ، ایشیا اور افریقہ میں بڑی بڑی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں خارجہ پالیسی اور عالمی تنازعات و معاملات کے بارے میں ٹرمپ اور ان کے حامی معاونین کا موقف اوباما حکومت سے خاصا مختلف ہے۔ ہمارے پڑوسی افغانستان سے امریکی فوجوں کی مکمل واپسی کے خلاف ہیں بلکہ ممکن ہے کہ بھارتی مطالبات کے تحت افغانستان میں امریکی رول اور پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے ٹرمپ کوئی نئے فوجی اور مانیٹرنگ کے اقدامات کریں۔ چین کے بارے میں ٹرمپ کا بار بار ذکر اور تائیوان و جاپان سے رابطوں کے ذریعے ٹرمپ تاثر تو کچھ اور دے رہے ہیں لیکن ٹرمپ کے کاروباری انداز کو سمجھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ چین سے مذاکرات کے ذریعے کچھ معاشی و تجارتی اور دفاعی امور پر ڈیل کرنا چاہتے ہیں مگر تاحال ٹرمپ کا عوامی انداز چین کے لئے دوستانہ نہیں مخالفانہ نظر آتا ہے۔ تباہ شدہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی کھل کر حمایت و تعاون کی پالیسی کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں میں ’’مضبوط‘‘ حکمرانوں کی حمایت سے موجودہ صورتحال کو برقرار رکھ کر مناسب صورتحال کا انتظار کرنا ہی ٹرمپ فارن پالیسی میں چوائس نظر آتی ہے۔ روس کی حمایت سے بشار الاسد کے اقتدار کو سہارا اور ان کے مخالفین کا روسی حملوں سے صفایا امریکی سوچ میں تبدیلی کا ایک بڑا فیکٹر ثابت ہوا ہے۔ داعش کو ختم کرنے کا پلان مگر اس کی کوئی تفصیل اشارتاً بھی ٹرمپ بتانے کو تیار نہیں۔



.
تازہ ترین