• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران کئے گئے بہت سے عجیب قسم کے وعدوں اور اعلانات نے دنیا کو حیران کر دیا تھا مگر بہت سے ممالک کا خیال تھا کہ یہ صرف انتخابی باتیں ہی ہیں۔ تاہم جب ڈونلڈ ٹرمپ نے 20جنوری کو بطور صدر حلف اٹھایا تو انہوں نے اپنے وعدوں کو عملی شکل دینی شروع کر دی۔ ان کا بہت اہم فیصلہ جس کی ناصرف امریکہ بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں سخت مذمت کی جا رہی ہے وہ 7مسلمان ممالک سے آنے والوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی ہے۔ یہ پابندی مذہب کی بنیاد پر لگائی گئی ہے جو کہ ماڈرن دنیا کی تاریخ میں بہت عجیب ہے اور وہ بھی اس ملک نے جو دنیا میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ سی آئی اے کے سابق چیف پینٹا نے کہا ہے کہ ان کے آبائو اجداد بھی امریکہ میں دوسرے ملک سے ہی آئے تھے، اسی طرح کا قصہ ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی ہے اور امریکہ ایسے ہی مہاجرین کا نام ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کے خلاف برطانیہ میں بھرپور احتجاج ہو رہا ہے اور ایک پٹیشن پر لاکھوں لوگوں نے دستخط کر دیئے ہیں جس میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ امریکی صدر کو برطانیہ کے دورے کیلئے دی جانے والی دعوت منسوخ کرے۔ برطانوی اپوزیشن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ہٹلر، مسولینی اور فاشسٹ کہا ہے۔ تاہم امریکی صدر ہیں کہ ان کو کسی احتجاج یا مذمت کا احساس نہیں ہو رہا۔ ایک 6سالہ بچے کو کئی گھنٹے ڈیلس ایئر پورٹ پر روکے رکھا گیا صرف اس لئے کہ وہ مسلمان تھا مگر ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اہلکار نے یہ کہہ کر بہت سوں کا دل مزید دکھایا کہ دہشت گردی کا تعلق عمر سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ بالآخر بچے کو کلیئر کر دیا گیا۔ یہ تو ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کی شروعات ہیں آگے وہ اور بہت سے ایسے اقدامات کرنے والے ہیں جس سے دنیا میں افراتفری مزید بڑھے گی۔ معلوم نہیں یہ دنیا کو کس تباہی کی طرف لے جائیں گے۔ جو کچھ بھی ابھی تک انہوں نے کیا ہے اس سے امریکی اقدار کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ میڈیا کے ساتھ جو تماشا ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں اس نے میڈیا کیلئے بہت سے چیلنجز پیدا کر دیئے ہیں مگر شاباش ہے دلیر اور بہادر صحافیوں پر کہ وہ اس امریکن ’’بلی‘‘ (bully)کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور میڈیا کے درمیان جس طرح کے سخت کشیدہ تعلقات انتخابی مہم کے درمیان رہے اور پھر ان کے صدر بننے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا صاف بتا رہے ہیں کہ ان کے چار سالہ دور میں یہ لڑائی کم نہیں ہوگی بلکہ بڑھتی ہی رہے گی اور ایسے تماشے بھی مزید ہو سکتے ہیں جس میں صحافیوں کو زبردستی وائٹ ہائوس یا ڈونلڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنسوں سے نکال باہر پھینکا جائے گا۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کوئی ٹرمپ عام انتخابات نہیں جیت سکتا اور نہ ہی وزیراعظم بن سکتا ہے کیونکہ یہاں کے ووٹر بڑے سمجھدار ہیں اور وہ متعصب نہیں ہیں۔ تاہم ہمارے کچھ سیاستدان ایک دوسرے کو ٹرمپ ضرور کہتے ہیں جس کا مقصد انہیں ایک غیر ذمہ دار سیاستدان کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف پاکستان کے ٹرمپ ہیں، ٹرمپ بھی بزنس کرتے ہیں اور نواز شریف کی طرح اپنے رشتے داروں کو لے کر آتے ہیں۔ دوسری طرف وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ نے کہا کہ عمران خان پاکستان کے ٹرمپ ہیں اور ٹرمپ امریکہ کا عمران خان ہے،2013 میں عوام پاکستانی ٹرمپ سے بال بال بچے اور 2018میں اس ٹرمپ کی سیاست دفن ہو جائے گی۔ یہ جاننے کیلئے کہ کون ٹرمپ ہے نواز شریف یا عمران خانان دونوں کی پالیسیوں کو سامنے رکھنا پڑے گا اور یہ کہ ان میں سے کون ملک کیلئے مشکلات، افراتفری اور مسائل کھڑے کر رہا ہے اور کون پاکستان کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہے۔2011میں پی ٹی آئی اچانک بہت بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھری۔ اس وقت سے آج تک عمران خان نے ملک میں امن وسکون نہیں رہنے دیا۔ وہ ہر وقت احتجاج، ہنگامہ، دشنام طرازی اور الزامات کی بوچھار کر رہے ہیں۔ انہیں بہت جلدی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح وزیراعظم بن سکیں مگر یہ خواب پورا نہیں ہو رہا۔ 2014میں دھرنا دے کر کئی مہینے ملک کو مفلوج کیے رکھا۔ جب ان کے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن نے رد کر دیا تو پھر بھی انہیں سکون نہیں آیا اور وہ احتجاج پر ڈٹے رہے اور جلسے جلوس کرتے رہے۔ اپریل2016 میں پاناما اسکینڈل سامنے آیا تو انہیں ایک اور بہانہ مل گیا جس پر وہ اپنا واویلا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب ساری امیدیں عدالت عظمیٰ پر لگائے بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف ہیں جو ہر وقت بڑے بڑے منصوبوں کی جلد از جلد تکمیل کیلئے کوشاں ہیں اور ان کا سارا وقت پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت پروجیکٹس کی مانیٹرنگ پر لگا ہوا ہے اور امید ہے کہ اس سال کے آخر تک پاکستان لوڈشیڈنگ کے عذاب سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا پالے گا جو کہ یقیناً کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ عمران خان کی الزام تراشی کے باوجود بھی وزیراعظم کافی نرم لہجے میں ان پر تنقید کرتے ہیں اور انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کی زبان کو نہیں اپنایا تاہم ان کی پارٹی کے کچھ رہنما عمران خان کو جواب دے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی نے سیاست میں ایسی زبان متعارف کرا دی ہے جس سے تلخی میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ اس وقت تک خاموش نہیں ہوتی جب تک اس کے لہجے میں ہی جواب نہ دیا جائے مگر پھر بھی کچھ سیاستدان بشمول صدر عوامی نیشنل پارٹی اسفندیار ولی کا کہنا ہے کہ وہ ایسی زبان استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ انہوں نے کبھی بھی سیاست میں ایسا نہیں کیا۔ پی ٹی آئی کی وجہ سے سیاست میں رواداری اور برداشت کا فقدان ہو گیا ہے اور بہت زیادہ تنائو پیدا ہو گیا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اگر انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کے اپنی مخالف ہیلری کلنٹن پر حملوں پر ایک نظر ڈالیں تو وہ کافی حد تک عمران خان کے مخالفین پر واروں سے ملتے جلتے ہیں۔ ٹرمپ نے تو تعصب، نفرت اور افراتفری پھیلا کر الیکشن جیت لیا کیا خان صاحب بھی 2018 میں ایسا کر سکیں گے ہمیں نہیں لگتا۔ اگر انہوں نے اپنی موجودہ پالیسیاں جاری رکھیں تو وہ کامیابی سے کافی دور ہوں گے۔ عوام بہترین جج ہیں وہ فیصلہ کریں گے کہ کون ٹرمپ ہے عمران خان یا نوازشریف۔ انہیں کا فیصلہ ہی بہترین فیصلہ ہے۔



.
تازہ ترین