• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نذیر صدیقی صاحب نے جب میرا اس سے تعارف کروایا تو وہ اپنے دکھ بیان کرتے کرتے رونے لگا اس نے میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام رکھا تھا، وہ ٹوٹی پھوٹی انگلش اور عربی مکس کرکے مجھ سے اپنا مدعا بیان کرنے کی کوشش کررہا تھا اور صدیقی صاحب جو عمرہ کی ادائیگی کیلئے ہمارے سعودیہ میں قیام کے دوران ہمارا بہت خیال رکھ رہے تھے اور انہوںنے ہماری بہت زیاد ہ خدمت کی تھی جن کا الفاظ میں اظہار مشکل ہے میں اور میری نوبیاہتا دلہن دونوں ان کے بہت مشکور تھے ، وہ اس کی گفتگو کو سمجھا نے میں میر ی مد د کر رہے تھے میرے کچھ قارئین ہوسکتا ہے میری دلہن کے بارے میں سن کر حیران ہورہے ہوں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ 21جنوری کو میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوچکا ہوں اور شادی کے بعد عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودیہ آگیاتھا، اب اگر شادی کا ذکر ہوہی گیا ہے تو چند سطور میں اپنے ان تمام دوست احباب کا شکریہ بھی ادا کرتا چلوں جنہوں نے میری شادی میں بھرپور شرکت کی یا کچھ احباب اپنی مصروفیت کی وجہ سے شرکت تو نہ کرسکے لیکن انہوںنے فون کالز اور پیغامات کے ذریعے مجھے زندگی کے اس سفر پر دعائوں سے نوازا میں اپنے والدین کا بھی بہت شکر گزار ہوں جنہوںنے زندگی کے سفر میں نہ صرف میری غلطیوں کوتا ہیوں کو معاف کیا بلکہ میری غلطیوں اور کوتاہیوں کو در گزر کرکے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی۔آج میں جو کچھ ہوں اس میں والدین کی قدم قدم پر رہنمائی شامل ہے ، میں اپنی بہن اور بہنوئی کا بھی شکر گزار ہوں جو خاص طور پر امریکا سے میری شادی میں شرکت کےلیے آئے تھے اور ایک بار پھر اپنے سسرال سمیت تمام احباب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھاتا ہوں کیونکہ کالم کے آغاز میں میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ میں شادی کا ذکر بھی کروں لیکن اپنے قارئین کو بھی یہ بتانا ضروری تھا کہ جنگ گروپ سے وابستگی اور بطور کالمسٹ رابطے کے بعد انہوںنے بھی میری بہت حوصلہ افزائی کی، مجھے اپنی محبت دی اور میری تحریروں کی تعریف یا تنقید کرکے میری کار کردگی میں اضافے کا باعث بنے ، ایک بار پھر صدیقی صاحب اور ان کے ذریعے مجھ سے ملنے والے شخص کا ذکر کرتا ہوں جس کا نام مبشر اور اس کا تعلق برما سے تھا ،صد یقی صا حب نے جب سے اسے یہ بتا یا تھا کہ میرا تعلق پاکستان کے ایک سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ سے ہے تو اس نے مجھے سے ملکر اپنا دکھ پورے پاکستان کے لوگوں تک پہنچانا چا ہا، مبشر سانولے رنگ اور تقریباًپچاس سال کی عمر کا شخص تھا اس کی آنکھوں سے گرنے والے آنسو میرےلیے بہت تکلیف کا باعث بن رہے تھے اور وہ کہہ رہا تھا کہ کیا پوری دنیا کے پاس برما کے مسلمانوں کےلیے کوئی ہمدردی نہیں ہے ، امن اور انسانی حقوق کا پرچار کرنے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم پر کس طرح زندگی کو مشکل اور اس زمین کو تنگ کردیا گیا ہے ، ہمارے ان بچوں کو ذبح کردیا جاتا ہے جن کے کان میں اذان تو دی گئی ہوتی ہے لیکن انہیں ابھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کون ہیں اور کہاں ہیں، نوجوان لڑکیوں کی ان کے والدین کے سامنے عصمت دری کی جاتی ہے ، سیکڑوں لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا ہے ، کیا اس دنیا جس میں چند سیکنڈز کی مووی، فوٹیج یا واقعہ کو نے کو نے میں مقبولیت حاصل کرلیتا ہے اس دنیا کو ہمارے دکھ ہماری تکلیف ہماری قتل و غارت اور ہم پر ڈھائے جانے والے ظلم کی کوئی خبر نہیں پہنچی، ہماری عورتوں ، ہمارے بچوں اور آگ میں جلائے جانے والے ان زندہ لوگوں کی چیخیں نہیں پہنچیں خود کو سپر پاور کہلوانے کے شوقین ملک ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ ہمارے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جارہاہے ، کیا ہمارے مسلم ممالک کو بھی ہمارے دکھ کا کوئی احساس نہیں ہے ، فلسطین ، کشمیر، شام اور عراق کے مسلمانوں کےلیے آواز اٹھانے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم بھی گوشت پوست کے انسان اور تو حید کا کلمہ پڑ ھنے وا لے ہیں پلیز پلیز ہمارا نہ کوئی سفیر ہے نہ کوئی سفارت خانہ ہے آپ ہی ہمارے سفیر بن کر ہماری بات، ہمارا دکھ اور تکلیف دنیا تک پہنچا دیں، میں نے برما کے اس مسلمان بھائی سے وعدہ کیا کہ اس کی آوازکو ضرور پہنچائوں گا میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کی آواز اٹھانے اور پاکستان کی طرف سے ان کی مدد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔



.
تازہ ترین