• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بانو آپا کی وفات کی خبر میں نے اسلام آباد میں ایک میٹنگ کے دوران سنی، میں نے لاہور کے لئے فلائٹ کا پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ جا چکی ہے، اگلی صبح سات بجے والی فلائٹ دستیاب تھی، جس کی اسلام آباد واپسی رات کو دس بجے تھی۔ اس دوران میری بات انیق سے ہوئی، انہوں نے بتایا کہ نماز جنازہ سہ پہر تین بجے ہوگی، میں صبح دس بجے گھر سےنکلا اور سیدھا ماڈل ٹائون کی جنازگاہ میں پہنچ گیا جہاں بانو آپا کا جسد خاکی لایا گیا تھا۔ اس روز میرے گھٹنوں کی تکلیف میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوگیا تھا۔ سو میں نے سب سے آخری صف میں کھڑے ہو کر نماز جنازہ میں شرکت کی اور پھر وہیں سے بائی روڈ اسلام آباد روانہ ہوگیا۔ میری طرف سے جنرل منیجر پی ٹی وی لاہور نے بانو آپا کے مرقد پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور میں اسلام آباد سے لاہور اور لاہور سے اسلام آباد واپس جاتے ہوئے اور اس تحریر کے دوران آپا کے ساتھ گزرے ہوئے مہربان لمحوں اور ان کی تحریروں کی خوشبو کے درمیاں گم رہا ہوں!
میں بانو قدسیہ کو اردو ادب کی مدر ٹریسا سمجھتا ہوں، میرے نزدیک مدر ٹریسا مامتا کی علامت ہے اور بانو آپا کی شخصیت کا اگر نچوڑ بیان کیا جائے تو وہ ایک ہی لفظ یعنی ’’مامتا‘‘ میں سمویا جاسکتا ہے۔ سراپا محبت، سراپا شفقت، دعائیں ہی دعائیں! کوئی چھوٹا ہو یا کوئی بڑا، ان کے سامنے آتا تھا تو ایک معصوم سا بچہ بن جاتا تھا جو بانو آپا سے محبتیں، دعائیں اور شفقتیں سمیٹ کر جاتا تھا۔ پاکستان بھر کے سینئر ادیبوں سے میرا نیاز مندی کا رشتہ ہے، میں ان کے گھروں میں آتا جاتا رہا ہوں، ان میں سے کچھ تو (میاں بیوی) ایک دوسرے سے ویسے ہی نالاں نظر آتے ہیں جبکہ ’’ادیبوں میں‘‘ شاید ایک آدھ جوڑا اور بھی ہو جو بہرحال میرے علم میں نہیں، جو اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی طرح ایک دوسرے سے ’’من تو شدم، تومن شدی‘‘ ایسے رشتے میں منسلک ہو اور ادب اور دوسرے امور میں ایک دوسرے کے دست و بازو بھی رہے ہوں، آپ یقین کریں مجھے تو بانو آپا کی نظروں میں اشفاق صاحب کے لئے ایک جھلک مامتا کی بھی نظر آتی تھی، عجیب لوگ تھے، میرے جیسا ایک ادنیٰ شخص بھی اپنی گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے ان نیک فطرت لوگوں کے لئے جو مجھ سے بلاوجہ محبت کرتے ہیں، زیادہ وقت نہیں نکال پاتا، مگر بانو آپا ور اشفاق صاحب کے گھر ’’داستان سرائے‘‘ کے دروازے ہر ادنیٰ اور اعلیٰ کے لئے کھلے رہتے تھے۔جوبات مجھے بہت اچھی لگتی تھی، گھر میں ملازم ہونے کے باوجود میاں بیوی دونوں خود مہمان نوازی کے فرائض انجام دیتے۔ اگر کھانے کا وقت ہوتا اور گھر پر کام کرنے والی نہ ہوتی تو بانو آپا باورچی خانے میں چلی جاتیں اور توے پر سے گرم گرم روٹیاں اتار کر خود لاتیں۔ مجھے ایک دعوت یاد ہے جس میں اشفاق احمد اور بانو آپا گھر کے لان میں کباب تیار کرنے میں مشغول تھے۔ آپا قیمے میں مسالہ مکس کررہی تھیں اور اشفاق صاحب کسی ماہر کبابئے کی طرح اسے سلاخ میں لگا کر دہکتے کوئلوں میں رکھتے جاتے اور پھر اسے الٹ پلٹ کر دیکھتے۔
آخری دنوں میں بانو آپا تقریباً گوشہ نشین ہو کر رہ گئی تھیں مگر میں ان کے بیٹے انیق کو سلام پیش کرتا ہوں جو دوستوں کی فرمائش پر انہیں منا کر تقریبات میں لے آتے، وہ انہیں میری درخواست پر الحمرا آرٹس کونسل کی بین الاقوامی کانفرنس میں بھی لے آئے تھے جس سے کانفرنس کی رونق میں چار چاند لگ گئے تھے۔ انیق ایک کام یہ بھی کرتا تھا کہ اپنی والدہ کی تنہائی کو دور کرنے کے لئے ان سے محبت کرنے والوں کو اپنے گھر مدعو کر لیتا جہاں بانو آپا کم بولتیں لیکن ہماری اوٹ پٹانگ گفتگو سے بہرحال محظوظ ہوتیں، اس نے اپنی اماں اور ہماری آپا کے لئے ایک میڈ ملازمہ رکھی ہوئی تھی جو ہمہ وقت ان کی خدمت پر مامور تھی۔ آپا مشرقی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھیں چنانچہ ان کے مزاج سے واقفیت کی بناء پر وہ میڈ تھوڑی تھوڑی دیر بعد آپا کا دوپٹہ صحیح کرتی نظر آتی۔
جہاں تک آپا کا تخلیق ادب میں حصہ ہے تو نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں انہوں نے کہانیاں لکھیں، پی ٹی وی کے لئے ڈرامے لکھے، اسٹیج کے لئے بھی لکھا اور ناول بھی لکھے۔ ان میں سے کسی ایک کی اہمیت کسی دوسرے سے کم نہیں، لیکن میرے نزدیک ان کا ناول راجہ گدھ‘‘ گزشتہ پچاس برس کے دوران لکھے گئے ناولوں میں اعلیٰ ترین ناول ہے۔ یہ ناول ایک ’’حیرت سرائے‘‘ ہے جس میں میں ابھی تک رہ رہا ہوں۔ راجہ گدھ کے کچھ حصے تو ایسے ہیں جو ایک تخلیقی اور تیز مشاہدہ والی خاتون ہی لکھ سکتی تھی اور یہ حصہ کالج کے مردانہ ہاسٹل کی زندگی کے حوالے سے ہے جس کی ہو بہو نقشہ کشی راجہ گدھ میں نظر آتی ہے۔
اور آخر میں ’’راجہ گدھ‘‘ کا یہ پیغام کہ رزق حرام ایک نسل تک محدود نہیں رہتا، بلکہ یہ کینسر کی طرح اگلی نسلوں میں بھی پھیل جاتا ہے۔ بانو آپا کا یہ پیغام ایک ماں کا پیغام ہے جو اپنے ان بچوں کے لئے بھی ہے جو اس کے قارئین ہیں۔ اگر ہو سکے تو ہم سب کوئی لقمہ اپنے حلق میں اتارتے وقت اپنی مامتا بھری بانو آپا کے اس پیغام کوضرور یاد رکھیں۔

.
تازہ ترین