• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خوشی اور اطمینان کی بات ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی رکن ڈاکٹر عذرا افٗضل نےخون کی موذی اور موروثی بیماری تھیلےسیمیا کے علاج اور بچائو کے لئے ایک بل پیش کردیا ہے اور اسمبلی نے اس بل کی مناسب ترمیم و اضافے کے ساتھ منظوری دے دی ہے جس کے تحت اس بیماری کی زد میں آنے والےبدنصیب بچوں سے خون کا رشتہ رکھنے والے تمام عزیزوں اور رشتہ داروں کے لئے خون کاٹیسٹ لازمی ہوگا اور لازمی ہوگا کہ اپنے خون میں اس موذی مرض کا اندیشہ رکھنے والے آپس میں شادی سے گریز کریں اس احتیاط اور پرہیز کے ذریعے پاکستان کو اس خوفناک مرض سے پاک ملک بنایا جاسکتا ہے جہاں ہر سال میجرتھیلے سیمیا کے پانچ ہزار سے بھی زیادہ مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے جو کہ بہت ہی خطرناک اور ہنگامی صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔ قبرص، ایران، یونان اور مالدیپ کے جزیروں کو اس بیماری سے محفوظ بنانے کے لئے بھی احتیاط اور پرہیزکا ہی طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے ۔ احتیاطی اور پرہیزی رکاوٹوں پر سختی اور پابندی سے عمل کرکے پاکستان کو کم از کم عرصے میںاس عفریت اور اذیت سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف، پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف ان کے صاحب زادے حمزہ شہباز اور قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق خون کی اس بیماری سے پاکستان کو محفوظ بنانے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس بیماری کے خلاف سندس فائونڈیشن، فاطمید فائونڈیشن اور اس طرح کے دوسرے اداروں سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ توقع ظاہر کی جاسکتی ہے کہ قوم کی مائوں کو اور ان کے بچوں کو زندگی بھر کے اندیشوں اور خطروں سے محفوظ رکھنے کے لئے شادی سے پہلے، شادی کرنے کی خواہش رکھنے والوں کے خون کا ٹیسٹ لازمی بنانے کی کوشش کی جائے گی اور یوں خطرناک اندیشوں سے نجات پانے کی امید پیدا ہوگی۔ ایران میں تو شادی کرنے والوں کے خون کے ٹیسٹ کا حوالہ ان کے نکاح ناموں میں درج ہوتا ہے۔تھیلے سیمیا خون کی بہت ہی زیادہ مہنگی بیماری ثابت ہوتی ہے۔ اس کا علاج بون میرو کی ٹرانس پلاٹیشن بیان کیا جاتا ہے مگر یہ یقینی علاج نہیں، چالیس فیصد سے زیادہ مثبت علاج ثابت نہیں ہوتا، علاج کی یہ مہنگائی اس علاج کو تقریباً ناممکن بنا دیتی ہے۔ خاص طور پر مڈل کلاس یا نچلی کلاس کے لوگ تو اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ چنانچہ پرہیزاور احتیاط کے علاوہ اس مر ض کا کوئی علاج نہیں ہے۔ جو بچے اس مرض کے ساتھ پیدا ہوگئے ہیں ان کو پوری زندگی دوسروں کے خون کی ضرورت ہوتی ہے مگر اجنبی خون حاصل کرنے کی کچھ قباحتیں بھی ہوتی ہیں جن کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔پہلے اس مرض میں مبتلا بچے پانچ سات سال سے زیادہ عمر نہیں پاتے تھے مگر اب بعض ادویات کے میدان میں آنے اور احتیاطی تدابیراختیار کرنے سے اس مرض میں مبتلا بچے جوان ہو رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اعلیٰ ملازمتیں بھی کرتے ہیں۔ سندس فائونڈیشن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں میں سے ایک اعزازی ڈاکٹر اسلم خان اس مرض کے اثرات کو اپنے خون کے اندر رکھتے ہیں اور اس مرض کو پاکستان سے غائب کرنے کی مہم میں پرجوش جذبے کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔توقع پیدا ہو چکی ہے کہ آئندہ دہائی کے اندر پاکستان اس عذاب سے محفوظ اور مامون ہو سکے گا۔ یقین ظاہر کیا جا تا ہے کہ سال 2050 تک پاکستان دنیا کی سولہویں سب سے بڑی معیشت کہلانے لگے گا مگر کسی ملک کی معیشت اس ملک کے عوام کی صحت اور تعلیم کے علاوہ امن و امان کی صورت حال سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔

.
تازہ ترین