• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں یکے بعد دیگرے حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد پاک افغان کشیدگی دن بدن بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ حکومت پاکستان نے افغان سرحد پر بھاری توپ خانہ پہنچا دیا ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے خود ساختہ واقعہ کے بعد امریکہ کی افغانستان پر جارحیت اور پھر دسمبر 2014میں نیٹو فورسز کی کابل سے واپسی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ہندوستان امریکہ کی سرپرستی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ لاہور بم دھماکہ، سانحہ سیہون شریف، پشاور اور کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کی تازہ ترین کارروائیوں نے پاکستانی قوم کو متحد اور یکجان کردیا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ ہماری سول اور سیاسی قیادت نے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ چونکہ انڈیا افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کروا رہا ہے اس لئے حکومت پاکستان نے امریکہ اور افغانستان کی حکومتوں کو دوٹوک پیغام دیدیا ہے کہ افغان سر زمین سے آنے والے بیرونی دہشت گرد عناصر کو کسی بھی صورت ہم برداشت نہیں کریں گے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2500کلومیٹر طویل سرحد ملتی ہے۔ دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان 64کراسنگ پوائنٹس ہیں جن میں سے محض 16کراسنگ مقامات کو قانونی حیثیت حاصل ہے، باقی سب راستے غیر قانونی ہیں جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں افغانی عوام روزانہ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ پاکستانی فورسز نے افغان سرحد کے بیشتر حصے کے ساتھ خندقیں بھی بنادی ہیں اور سیکورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا ہے۔ حکومت پاکستان نے اگرچہ افغان سرحد سیل کردی ہے مگر یہ ایک بہت مشکل کام ہے۔ زیادہ عرصے تک ہم اپنی فورسز کو وہاں نہیں رکھ سکیں گے۔ کیونکہ اس طرح ہماری مشرقی سرحد بالکل غیر محفوظ ہو جائے گی۔ ہندوستان نے کامیاب چال کے ذریعے پاکستان کی تمام تر توجہ مغربی سرحد کی جانب مرکوز کر دی ہے۔ پاک افغان کشیدگی کو کم کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے بھی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے افغانستان کے لئے خصوصی نمائندے تادمیچی یاماموتو نے چند روز قبل اپنے پاکستانی دورے کے دوران وزارت خارجہ کے حکام سے اہم ملاقاتیں بھی کیں۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ موثر بارڈر مینجمنٹ چاہتا ہے جس کے لئے افغان حکومت کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ مزید برآں افغانستان میں امن و استحکام کے لئے چار فریقی رابطہ گروپ ایک موثر فورم ہے اور سیاسی مذاکرات ہی افغان مسئلے کاسب سے زیادہ قابل عمل عمل ہے۔
پاک افغان سرحد پر پایا جانے والا تنائو اور کشیدگی دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ افغانستان میں صدر اشرف غنی کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اشرف غنی سابق افغان صدر حامد کرزئی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے اور پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اشرف غنی تو پاکستان دشمنی میں حامد کرزئی سے بھی کئی ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے انہیں پوری طرح شیشے میں اتار لیا ہے۔ عبداللہ عبداللہ شمالی اتحاد سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ پاکستان مخالف سوچ رکھتے ہیں جبکہ افغان صدر اشرف غنی کو معتدل رہنما سمجھاتا تھا مگر انہوں نے اپنی اب تک کی پالیسیوں سے ثابت کردیا ہے کہ وہ امریکہ اور بھارت کے اشارہ ابرو پر افغانستان کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ افغان حکومت کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ وہ آخر کب تک امریکہ اور بھارت کے ایجنڈے پر کام کرتی رہے گی؟ افغان حکام کو خطے میں امن کے قیام کے لئے پاکستان سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانا ہو گا۔ پاکستان دنیا میں وہ واحد ملک ہے جس نے35سال تک 50لاکھ افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی ہے۔ انڈیا نے ماضی میں مشکل حالات کے دوران ایک بھی افغان مہاجر کو اپنے ملک میں پناہ نہیں دی۔ آج وہ افغان حکومت کو محض اپنی دوستی کا جھانسہ دے رہا ہے۔ وہ افغانستان کا دوست نہیں بلکہ کھلا دشمن ہے۔ ہندوستان کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں امن قائم ہو کیونکہ اگر افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے تو انڈیا کو مسئلہ کشمیر کو فوری حل کرنا پڑے گا۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی بھارتی ریاستی دہشت گردی سے دنیا کی نظریں اوجھل ہیں۔ تاہم افغانستان میں بدامنی کی طرف ہر کوئی دیکھ رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت پاکستان کو حکمت و دانائی سے کام لینا ہوگا۔ افغانستان سے تعلقات کو خراب کرنے کا فائدہ ملک دشمن بیرونی قوتوں کو ہو گا۔ افغان حکام کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ مشترکہ دشمن کے خلاف دونوں ملکوں کو مل کر لڑنا چاہئے۔ مغربی سرحد پر بارڈر مینجمنٹ کو بہتر کرنا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے مگر پاکستانی فورسز کے ایک بڑے حصے کو وہاں تعینات کرنا غیر دانشمندانہ اقدام ہو گا۔ ہمیں اپنی مشرقی سرحد سے ہندوستان کی ریشہ دوانیوں کابھی قلع قمع کرنا ہوگا۔ بھارت کنٹرول لائن پر پاکستانی سرحدی علاقوں پر بلاجواز فائرنگ اور گولہ باری کرکے ہمیں مشرقی سرحد پر مصروف رکھتا ہے اور دوسری طرف وہ افغانستان میں اپنی خفیہ تنظیم ’’را‘‘ کے نیٹ ورک کے ذریعے پاکستان میں پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کروا رہا ہے۔ پاکستان کو اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ بھارت کو لگام دے اور اسے پاکستان مخالف جارحانہ عزائم سے روکے بصورت دیگر نیوکلیئر طاقت رکھنے والے دونوں ملکوں کے درمیان خدانخواستہ ایٹمی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے جو تیسری جنگ عظیم کی بھی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ ہندوستان کو اس قدر کھلی چھوٹ ہرگز نہیں دینی چاہئے کہ جس سے عالمی امن کو نقصان پہنچے۔ عدل و انصاف کو قائم رکھنے سے ہی عالمی سطح پر توازن کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری جنوبی ایشیا کے دیرینہ مسئلے جموں و کشمیر کو حل کروانے کے لئے اپنا حقیقی کردار ادا کرے۔ اگر جموں و کشمیر کا معاملہ حل ہو جاتا ہے تو پھر افغانستان میں بھی بھارتی مداخلت ختم ہو جائے گی۔ افغانستان کو پاکستان پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان بھی مستقبل میں افغانستان کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ افغان حکومت کو اپنی سرزمین سے بھارتی دہشت گردوں کو باہر نکالنا چاہئے۔ اس وقت ہندوستان افغانستان کے لئے خاصی مشکلات پیدا کر رہا ہے جس کے تلخ نتائج کا سامنا افغانستان کو کرنا پڑ سکتا ہے پاکستان کو اس وقت اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔ پنجاب میں بھی ملک دشمن بیرونی عناصر کے خلاف رینجرز کی مدد سے بے رحم آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں اگر کہیں ایسے عناصر موجود ہیں جن کو بھارت کی سرپرستی حاصل ہے اور وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں تو ایسے سماج دشمن افراد کو نشانہ عبرت بنادینا چاہئے لیکن اگر اس کی آڑ میں دینی مدارس، مذہبی تنظیموں اور علمائے کرام کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا تو اس آپریشن سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ تمام دینی وسیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر اگر پنجاب میں آپریشن کیا جائے گا تو اُس سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہو سکیں گے۔


.
تازہ ترین