• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امید کے باغ کو ہرا بھر ا رکھنے میں کوئی حرج نہیں، توقعات کے چراغ جلائے رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں،کیونکہ مایوسی گناہ ہے۔ مایوسی بے عملی کو جنم دیتی ہے اس لئے امیدوں کے خواب پالنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ دراصل زندگی نام ہی ہے امیدوں، خوابوں اور حسن ظن کا ورنہ اگر زندگی سے امیدوں اور توقعات کو خارج کردیا جائے تو زندگی محض ایک فریب نظر بن کر رہ جاتی ہے لیکن میں کچھ اور کہنا چاہتا ہوں۔ میری عرض ہے کہ امید اور ناامیدی کے درمیان بھی ایک شے پائی جاتی ہے جسے ہم یا تو بھول جاتے ہیں یا پس پشت ڈال دیتے ہیں اور وہ شے ہے حقیقت اور حقیقت پسندی۔ ہمارے تجزیہ نگار، دانشور، لکھاری، اینکر پرسن سب ایک ہی برادری کے رکن ہیں۔ انہیں آپ شاعر تو نہیں کہہ سکتے لیکن میں نے تجزیات پڑھتے ہوئے اور ٹی وی چینلوں پر پرجوش اور پرشور پروگرام سنتے ہوئے اکثر محسوس کیا ہے کہ ہماری یہ برادری بھی شاعرانہ مزاج رکھتی ہے اور لاشعوری طور پر مبالغے اور نرگسیت کی اسیر نظر آتی ہے۔ تجزیات کے لباس پر اکثر مبالغوں کے پیوند نمایاں نظر آتے ہیں اور اندازوں کے رنگ غالب ہوتے ہیں۔ تجزیات وہی ٹھوس اور حقیقی ہوتے ہیں جن کے سوتے تاریخ سے پھوٹتے ہیں اور جو ہماری تاریخی حقیقتوں کے قریب تر ہوتے ہیں، ا گر محض اخبارات پڑھ کر اور تخیل کے گھوڑے دوڑا کر مستقبل بینی کی کوشش کی جائے تو وہ مشق ستم بن جاتی ہے اس لئے مستقبل کے دشت کی سیاحی کے لئے اپنی تاریخ کا بغور مطالعہ ناگزیر ہے۔ دوسرے ممالک کی مثالیں بھی اکثر سعی لاحاصل ہوتی ہیں کیونکہ ہر قوم کی اپنی روایات، معاشرتی سوچ اور تاریخی ورثہ ہوتا ہے جو دوسری اقوام سے مختلف اور بعض اوقات متضاد ہوتا ہے۔
ٹی وی پر اکثر شرکاء گفتگو پاناماا سکینڈل کا ذکر کرتے ہوئے ان ممالک کی مثالیں دیتے ہیں جن کے سیاسی حکمرانوں نے پاناما ا سکینڈل میں نام آتے ہی یا بیوی کا نام آتے ہی عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ معلوماتی حد تک یہ بات مفید ہے لیکن اس صورتحال یا مثال کا پاکستان پر اطلاق کیونکر کیا جاسکتا ہے جہاں استعفے دینے کی روایت ہی موجود نہیں۔ سیاسی حکمران اس وقت تک کرسیوں سے چمٹے رہتے ہیں جب تک انہیں فوج، عدالت یا عوام اقتدار سے محروم نہ کریں۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن ممالک کی آپ مثالیں دیتے اور لوگوں کو خواب دکھاتے ہیں وہاں سیاست اور اقتدار ایک طرح کی عبادت اور خدمت سمجھی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں سیاسی اقتدار صدیوں پرانی بادشاہت کی توسیع ہے اور اقتدار کے حصول کا مقصد دولت کے پہاڑ جمع کرنا، اقرباء پروری کے ریکارڈ قائم کرنا، حواریوں، خوشامدیوں کو نوازنا ا ور دربار سجانا ہوتا ہے۔ ان میں سیانے حکمران ذاتی مالی مفادات کے ساتھ ساتھ عوام کی بھلائی کا بھی کچھ کام کرجاتے ہیں اور ان کے دکھوں پر آنسو بہا کر سرخرو ہوجاتے ہیں جبکہ حریص اور لالچی حکمران صرف اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ زر و جواہر سے بھرتے ہیں اور غیر ملکی بنکوں کی خوشحالی کا باعث بنتے ہیں۔
حزب مخالف سے لے کر میڈیا تک آج کل ایک ہی راگ تواتر سے الاپا جارہا ہے۔ بڑے بڑے افلاطون ایک ہی فلسفہ جھاڑ رہے ہیں۔ میں ان کی دل پذیر گفتگو اور دل فریب تجزیے سنتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے ان کے الفاظ تاریخی شعور سے نابلد ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تاریخ کو نہ تجزیات سے بدلا جاسکتا ہے اور نہ ہی تاریخی دھارا شعور کا سیلاب آنے سے پہلے اپنا راستہ بدلتا ہے۔ بہت سی باتوں، موضوعات اور خوابوں سے قطع نظر صرف ایک مثال پیش خدمت ہے۔ بار بار کہا جارہا ہے کہ پاناما مقدمے کے فیصلے کا ہماری سیاست اور تاریخ پر گہرا اثر مرتب ہوگا۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ پاناماا سکینڈل ہمارے مستقبل کا رخ موڑ دے گا۔ ایک گول مول تجزیات کے ماہر تجزیہ کار کا فرمان ہے کہ نوجوانوں میں بہت غصہ پیدا ہوگیا ہے۔ نوجوان سیاست کا دھارا بدل دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ تاریخ قومی شعور اور رویوں کا تسلسل ہوتی ہے۔ اس کا رخ موڑنا اور دھارا بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ میں سیاسی فلاسفروں کے بلند بانگ دعوے سنتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ جب1978میں بھٹو حکومت کے خلاف دھاندلی کے الزام پر تحریک چلی اور تحریک زور پکڑتی چلی گئی تو ہمارے پختہ ذہن سیاستدان اور تجزیہ نگار کہا کرتے تھے اس سے رائے عامہ کی تربیت ہورہی ہے۔ جب بھٹو کا تختہ الٹ دیا گیا اور وقت کے طاقتور ترین وزیر اعظم کو پابند سلاسل کرنے کے ساتھ ساتھ تذلیل کا نشانہ بنایا گیا تو ہمارے میڈیا پر ایک ہی ترانہ گایا جاتا تھا کہ اب آئندہ کوئی حکمران انتخابات میں دھاندلی کی جرأت نہیں کرے گا۔ کہاں 1978اور کہاں .......2013 کیا انتخابات دھاندلی سے پاک ہوگئے؟؟آج تک کوئی ایک انتخاب بتادیجئے جس پر دھاندلی کا الزام نہ لگا ہو اور شور نہ مچا ہو۔ جنرل ضیاء الحق اقتدار سے رخصت ہوئے تو ہمارے افلاطونوں نے امیدوں کے چراغ روشن کرتے ہوئے قوم کو یقین دلایا کہ اب آئندہ پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں لگے گا۔ گیارہ ہی برس گزرے تھے کہ جنرل پرویز مشرف نے شب خون مار دیا۔ رہا پاناما ا سیکنڈل تو اس کے بھی مستقبل کی تاریخ پر فیصلہ کن اثرات ہرگز مرتب نہیں ہوں گے، البتہ وقتی اثرات ضرور رنگ دکھائیں گے۔ کم از کم ہماری تاریخ اس حسن ظن کے ثبوت نہیں دیتی کہ آئندہ کوئی حکمران دولت بنانے، لوٹ مار اور کمیشن کمانے اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ جن ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں ان کی رائے عامہ نہایت تربیت یافتہ اور بیدار ہوتی ہے وہاں احتسابی ادارے نہایت مضبوط اور آئینی حوالے سے طاقتور، آزاد ا ور اقتدار سے بالا ہوتے ہیں اور وہاں اقتدار کا تصور حکومت برائے خدمت ہوتا ہے نہ کہ حکومت برائے دولت۔ معاشرہ باشعور ہوتا تو زرداری صاحب کے کارناموں کے بعد پی پی پی کا نام و نشان مٹ جانا چاہئے تھا لیکن پی پی پی ا ٓج بھی سندھ پر حاوی ہے اور بلاول کے میدان میں اترنے کے بعد دوسرے صوبوں میں بھی منظم ہورہی ہے۔ تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہی لگتا ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ ، جو بھی آئے، اس کے اثرات ضرور ہوں گے لیکن وقتی ...... یہ کوئی فیصلہ کن موڑ ثابت نہیں ہوگا۔ یہ آئندہ کے لئے ایمانداری کی کوئی ضمانت نہیں دے گا ۔فی الحال تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں ۔یار زندہ صحبت باقی۔


.
تازہ ترین