• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علی کینیڈا میں رہتا تھا۔ اس کے بیوی بچے ساتھ تھے۔ اس کی زندگی پرسکون تھی۔ کینیڈین شہریت اس کے پاس تھی۔ جب اس نے کینیڈین پاسپورٹ کے لئے اپلائی کیا تو پھر وہ لمحہ آگیا جسے فیصلے کا لمحہ کہتے ہیں۔ اس مرحلے پر دل اور دما غ کی لڑائی کا آغاز ہو گیا۔ دماغ کہتا تھاکہ کینیڈا بڑا پرسکون اور امیر ملک ہے۔ یہاں ترقی کے مواقع زیادہ ہیں۔ بچے پڑھ لکھ جائیں گے۔ ان کا روزگار اچھا ہو جائے گا مگر د وسری طرف دل تھا اور دل کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’دل ہے کہ مانتا نہیں‘‘ علی کا دل پاکستان میں تھا، دل کہتا کہ چلو کینیڈا چھوڑ دو، اپنے دیس کو چلو۔ وہاں ترقی کے مواقع کم سہی ، وہاں بے چینی سہی، وہاں زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ بچوں کو عمدہ تعلیم نہیں ملے گی، مانا کہ وہاں روزگار کے مواقع کم ہیں مگر پاکستان پھر بھی پاکستان ہے۔میرا دیس ہے، دل اور دماغ کی اس لڑائی میں بالآخر دل جیت گیا۔ علی نے کینیڈین پاسپورٹ حاصل کرنے کی بجائے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بیوی بچوں نے بڑی تنقید کی مگر وہ ڈٹارہا۔ بس پھر پورا خاندان سکون، سہولتیں چھوڑ کر پاکستان آگیا۔ وقت گزرتارہا۔ علی پر تنقید ہوتی رہی، جب کئی سال گزر گئے تو 30اکتوبر 2011کا دن آگیا۔ اس شام لاہور پی ٹی آئی کے جلسے میں امڈآیا۔ پاکستان نے عمران خان کی محبت میں پورے پر پھیلا دیئے۔ اسی جلسے میں جب عمران خان نے کہا کہ..... ’’میں سبز پاسپورٹ کی قدر کروائوں گا، لوگ سبز پاسپورٹ پررشک کریںگے۔ پاکستان میں اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ یہاںصرف دیانتدارلیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ دنیا سبزپاسپورٹ والے ملک کو دیکھنےکے لئے آیا کرے گی۔ بیرونی لوگ روزگار کے لئے پاکستان آیاکریں گے.....‘‘ ا ن جملوں کی ادائیگی کے بعد علی کے لئے خوشی کا لمحہ آیا جب اس کے بیٹے نےکہا..... ’’پاپا! آپ کا پاکستان آنے کا فیصلہ درست تھا۔ ہمارے پیارے پاکستان کو صرف ایک دیانتدار لیڈر کی ضرورت تھی۔ ہمیں لیڈر مل گیاہے۔ ہم کینیڈا سے کہیں آگے نکل جائیں گے..... ‘‘
اس جلسے کے بعد پاکستان کے کرپٹ سیاستدانوں میں اتحاد ہونے لگا۔ انہوں نے بندوبست کے لئے علاقے بانٹ لئے، بددیانتی پر مشتمل نظام حرکت میں آگیا۔ وہ سب اس میں لگ گئے کہ کسی طریقے سے عمران خان کا راستہ روکاجائے۔ جب 2013کے الیکشن کی مہم شروع ہوئی تو ہر طرف عمران خان ہی کے جلسے تھے۔ اس کے مخالفین خاندانوں سمیت ایک خاموش جلسہ کرتے تو عمران خان دن میں چھ چھ زندہ اورپرجوش جلسے کرتا، پھر اس تیز مہم کاراستہ روکنے کیلئے اسے لاہور میں گرایا گیا۔ وہ اسپتال پہنچ گیا مگر لوگوں کی محبت کم نہ ہوئی۔ لوگوں نے پوری محبت کے ساتھ ایک بڑی تبدیلی کے لئے سارادن پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالے۔ نتائج کی ابتدا ہوئی تو پی ٹی آئی اپنے مخالفین سے ہزاروں ووٹ آگے تھی ۔پھررزلٹ رک گیا۔ ایک بریک لگ گئی۔ کرپٹ نظام ایک دیانتدار شخص کا راستہ روکنے کے لئے متحرک ہوا۔ خاص طور پر د و اہم شخصیات بہت متحرک ہوئیں۔ پھر نصف شب کو چھو منتر کے ذریعے نتائج کچھ سے کچھ اور ہوگئے۔اس دوران ایک لیڈر کی تقریر بھی ہوئی جو رات کو ساڑھے دس گیارہ بجے پتہ نہیں کس سے اکثریت مانگ رہے تھے۔ الیکشن کمیشن کارویہ کیا تھا، الیکشن کے بعد ٹربیونلز کارویہ کیاتھا، اگر لکھنا شروع کیاتو کئی کتابیں لکھنا پڑیں گی۔ صرف اتنا ہی کافی ہے 2013کا الیکشن دھاندلی زدہ تھا۔ اسے آپ کسی صورت بھی شفاف نہیں کہہ سکتے۔ جو دو شخصیات الیکشن نتائج کی تبدیلی کے لئے متحرک ہوئی تھیں انہیں آج رسوائی کا سامنا ہے۔ محض ذاتی مفادات کی خاطر ملک کا مستقبل دائو پر لگایا تھا اور جس قیادت کو جتوایا تھا وہ آج پاناما کی رسوائی میں کھڑی ہے۔
پاناما سے یاد آیا کہ مجھے اس دن بہت حیرت ہوئی جس روز ایک وزیر ڈاکٹر طارق فضل نے صادق اورامین ہونے کو غیراہم قرار دیا۔ میری کابینہ میںشامل پیر امین الحسنات سے گزارش ہے کہ وہ اپنےوالدپیر کرم شاہ الازہریؒ کی لکھی ہوئی سیرت النبیﷺ اپنے ساتھی ڈاکٹر طارق فضل کو پڑھنے کے لئے دیں تاکہ ڈاکٹر صاحب کو پتہ چل سکے کہ جب چالیس سالہ زندگی کے بعد نبی پاک حضرت محمدﷺ نے اعلانِ نبوت کیا تھا تو ان کے پاس سب سے مضبوط دلیل صادق اور امین ہونا تھی۔ مکے کے کافر بھی آپﷺ کو صادق اور امین مانتے تھے۔ صادق اور امین ہونا کس قدر اہم ہے اس کی فضیلت کا بدقسمتی سے ہمارے وزرا کو پتہ ہی نہیں۔ اگر لیڈر شپ صادق اور امین ہو تو ترقی اور فتوحات مقدر بن جاتی ہیں اور اگر خدانخواستہ لیڈرشپ بددیانت ہو تو پھر رسوائیوں کے راستے سے کون روک سکتاہے۔
میں نے کالم کے آغاز میں علی کا تذکرہ کیا ہے۔ عمران خان کے پاس بھی علی کی طرح دو نہیں تین راستے تھے۔ وہ انگلینڈ میں پرسکون زندگی گزار سکتا تھا۔ کرکٹ پر تبصرے کرکے لاکھوں ڈالرز کما سکتا تھا۔ وہ بریڈفورڈ یونیورسٹی کاچانسلر تھا۔ اس کے پاس دوسرا راستہ یہ تھا کہ پاکستان آ کرسوشل ورک کرتا، کرکٹ ٹیم کاکوچ بن جاتا، کرکٹ پر تبصرے کرتا، پی سی بی کا تاحیات چیئرمین بن جاتا۔ سکون سےزندگی گزارتا۔ اس کا یہ راستہ ہیرو ہونے کی وجہ سے قوم سراہتی۔ یہ راستہ کرپٹ لیڈرشپ کو بھی قبول تھا مگراس نے تیسرا راستہ چنا۔ اس نے قوم کے لئے ترقی کا راستہ چنا۔ اس نے بددیانت لیڈرشپ سے جان چھڑوانے کے لئے میدانِ سیاست میں کودنا پسندکیا۔ اسے قوم نے نہ صرف قبول کیا بلکہ بہت سراہا بھی۔ قوم اس کے جلسوں میں شریک ہوئی مگر اس کا یہ راستہ پاکستان کے کرپٹ ترین سیاستدانوں کو پسند نہ آیا۔ انہوں نےکرپٹ نظام کے سارے پرزے عمران خان کے خلاف متحرک کردیئے۔ اسے گالیاں دینے کے لئے بندے رکھ لئے، جن کا کام صرف عمران خان کو گالیاں دینا ہے۔ گالیاں دینے والوں کو شاید یہ معلوم نہیں کہ عمران خان قوم کا ہیرو ہے۔ اس نےاقتدار کے بغیر پاکستان میں وہ اسپتال بنائے جو حکومتیں نہیں بناسکیں۔ قوم اسے سچا اور دیانتدار سمجھتی ہے۔ اسی لئے تو پورا کرپٹ نظام اس کے خلاف ہے مگر اس سب کے باوجود وہ اطمینان سے ہے، پرسکون ہے، اس نے دل چھوٹا نہیں کیا ورنہ اتنےزخموں کے بعداکثر لوگ ہمت ہار جاتے ہیں، وہ باہمت کھڑا ہے۔
چندروز پہلے بنی گالہ میں اس سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں ہم تین صحافی یعنی میرے علاوہ علی رضا علوی اور فرخ نواز بھٹی تھے جبکہ عمران خان کی پارٹی کے افراد میں سے نعیم الحق، اسد قیصر، علی زیدی، عون چوہدری اور افتخار درانی تھے۔ اس میٹنگ میں بھی عمران خان کے حوصلے بلند تھے۔ وہ پورے یقین سے کہہ رہا تھا کہ..... ’’میں نےپاکستان کے کرپٹ ترین لیڈرز کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ان شاءاللہ کرپشن کا نظام زمین بوس ہوگا۔ پاکستان ترقی کرے گا۔ پاکستان آگے بڑھے گا۔ کرپٹ لیڈرز کچھ بھی کرلیں وہ ایک صاف ستھرے پاکستان کا راستہ نہیں روک سکتے۔ اب پاکستان کی جھولی میں کرپٹ افراد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ وقت آنے والا ہے جب ہم اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنائیں گے۔ سبز پاسپورٹ کی دنیا سے قدر کروائیں گے..... ‘‘
واپسی پر یہی سوچ رہا تھا کہ آخر لوگ عمران خان کو کیوں پسند کرتے ہیں، صرف اس لئے کہ وہ کرپٹ نہیں ہے، وہ کرپٹ افراد کے خلاف ہے، وہ پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنا چاہتاہے، وہ سمجھتا ہے کہ لیڈر کو ہر حال میں صادق اور امین ہونا چاہئے۔ وہ سچا پاکستانی ہے، پاکستان سے پیار کرتا ہے، پاکستان کےنام پر ووٹ لیتاہے، انڈیا سے دوستی کے نام پر نہیں۔ اس کی یہی باتیں اسے نوجوان نسل کاہردلعزیز رہنما بنا دیتی ہیں۔ اس کی یہی باتیں اسے پاکستان سے پیار کرنے والے بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں میں مقبول بنا دیتی ہیں۔ بقول اقبالؒ؎
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

.
تازہ ترین