• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پی ایس ایل پر جس قدر سیاست ہورہی ہے اس کانام ’’پاکستان سپر سیاست لیگ ‘‘تجویز کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان کی سیاست پر اعتراض کیاجاسکتا ہے مگر کوئی بھی ان کی کرکٹ کو غیرمعیاری قرار نہیں دے سکتا ۔اگر کوئی ایسا کرتاہے تو سمجھ لیجئے کہ وہ ’’ آن ڈیوٹی ‘‘ ہے۔ رانا ثنا ء اللہ ، طلال چوہدری ، دانیال عزیز، مریم اورنگ زیب ، خواجہ سعد رفیق اورخواجہ آصف سمیت دیگر نون لیگی احباب انہیں میاں نوازشریف کے پائے کا سیاستدان خیال نہیں کرتے لیکن اس پر کیاکہاجائے کہ ان کے سیاسی مخالفین عمران خان کی گراں قدر خدمات کو بھی فراموش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔عمران خان کاشمار دنیا کے بہترین آل رائونڈر ز میں ہوتا ہے ۔ایک سروے کے مطابق سر گیری سوبرپہلے اور عمران خان دوسرے نمبر کے آل رائونڈر ہیںلیکن شاید اس ریکنگ پر عابدشیر علی کو اعتراض ہوگا۔ اس نقطہ اعتراض پر مجھے جیونیوز کے پروگرام ’’خبرناک ‘‘ کے وہ نون لیگی یاد آگئے جو ہر قسم کاکریڈٹ صرف اپنے لیڈر میاں نوازشریف کو دیتے ہیں۔یہ دلچسپ کردار معروف اداکار آغا ماجد، حسن مراد اور شیری ننھا ادا کرتے ہیں۔ تینوں باپ بیٹا نون لیگی دکھائی گئے ہیں اور میاں نوازشریف کے جانثار ہیں ، ان کے سامنے اگر عمران خان کے بہترین آل رائونڈر ہونے کی بات کی جائے تو وہ جھینپے بغیر کہیں گے ’’ اوئے میاں صاحب سے بڑا کوئی آل رائونڈر نہیں ہے ‘‘۔عمران خان نے اپنی پڑھائی لکھائی چونکہ انگریزی میں کی ہے اسلئے ان کی اُردو قدرے کمزور ہے۔ اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہوئے وہ بعض اوقات مناسب الفاظ کا چنائو نہیں کرپاتے جس سے ان کے سیاسی مخالفین ان کے خیالات کو اپنی مرضی کا عنوان دیتے ہیں۔ عابد شیر علی نے کہاہے کہ عمران خان پاکستان کے بال ٹھاکرے ہیں۔عابدشیر علی نے براہ راست بال ٹھاکرے کو دیکھا ہے یانہیں البتہ ہم نے ممبئی میں اس کھل نائیک کے ’’درشن ‘‘ کر رکھے ہیں ۔عمران خان ظاہری اورباطنی طور پرکہیں سے بھی ٹھاکرے دکھائی نہیں دیتے ان پر صوبائی تعصب پھیلانے کا الزام لگانے والوں کو وہ نعرہ بھی یاد رکھنا چاہئے جو 90کی دہائی میں محترمہ بے نظیربھٹو کے خلاف پنجابی ووٹروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کے لئے لگایاگیاتھاکہ ’’جاگ پنجابی جاگ ،تیری پگ نوں لگ گیاداغ‘‘۔( جاگو پنجابی جاگو ،تمہاری دستار کو داغ لگ گیاہے )
اگرچہ کرکٹ اہالیان وطن کا پسندیدہ کھیل ہے اور میڈیانے گلیمرائز کرکے اسے وہ مقام عطا کیاہے جومسٹر مجنوں نے اپنی جانِ عزیز لیلیٰ بیگم کو عطا کر رکھا تھا۔ آصف زرداری کو کرکٹ پسند نہیں ہے ان کاکہناہے کہ کرکٹ میاں صاحب کو پسند ہے یا ان کی فیورٹ ہے جو اس سے مال بناتے ہیں۔ مال صرف کرکٹ سے نہیں سیاست سے بھی بنایاجاتاہے ۔ مال بنانے کے جائز اورناجائز طریقے ہوتے ہیں یہاں مال بنانے سے مراد حرام خوری سے ہیں۔ صدر ممنون حسین نے بھی کہا ہے کہ ہمارے ہاں حرام خوری کی جارہی ہے۔صدرِمحترم نے بطور خاص افسر شاہی اور سرکاری حرام خوری کی بات کی ہے ، ان اداروں پر الزام ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی ایمانداری اور صحیح اسپرٹ کے ساتھ سرانجام نہیں دے پارہے۔صدر ِ محترم نے اس معاشرتی بیماری کی تشخیص پہلی مرتبہ نہیں کی ۔حرام خوری کی بیماری کے جرا ثیم پہلے سے موجود تھے ’’مریض‘‘ کی ہسٹری بتاتی ہے کہ جنرل ضیاالحق کے دور میںاس بیماری نے شدت اختیار کی بعد میں آنے والے ادوار میں یہ مرض لاعلاج ہوگیااور اب اسپتال والوں نے کہہ دیا ہے کہ ’’مریض کو گھر لے جائیں‘‘۔
نواب زادہ نصراللہ خان کی طرح شیخ رشید کا ہر قدم بھی سیاسی ہوتاہے۔شیخ رشید نے کہاہے کہ وہ پی ایس ایل کا فائنل دیکھنے لاہور آئیں گے اور اس کے لئے انہوں نے مبلغ 8000ہزار روپے کا ٹکٹ بھی خریدلیاہے۔شیخ صاحب کو اپنے شیخ ہونے کے باعث روپے پیسے کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ وہ سوچ رہے ہیںکہ 8000ہزار روپے کا ٹکٹ فروخت کرکے 500سو روپے کاٹکٹ خریدلیں اور اس عوامی انکلوژر میں بیٹھیں جہاں فائنل کا مزہ دوآتشہ ہوگا ۔ لاہور میں پی ایس ایل کے ٹکٹ بلیک میں فروخت کرنے والے افراد بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ شیخ صاحب یقینا محتاط رہیں گے ۔شیخ صاحب نے بتایاہے کہ انہیں نجم سیٹھی نے ٹیلی فون پر کہاہے کہ ان کے لئے وی آئی پی انکلوژر حاضر ہے ۔یہ بھی اطلاع ہے کہ وزیر اعظم اگر فائنل سے لطف اندوز ہونے کے لئے قذافی اسٹیڈیم جلوہ گر ہوں تو ’’گوگو‘‘ کا نعرہ بلند نہ ہونے پائے اس ’’سازش‘‘کو دبانے کے لئے اونچے سروں میں نعرے لگانے والے نون لیگی کارکنوں کا دستہ بھی تیار ہے ۔عمران خان نے پی ایس ایل اور سیکورٹی انتظامات کیلئے کہاہے کہ اتنی سیکورٹی کے ساتھ تو فائنل شام اور عراق میں بھی کرایاجاسکتاہے ۔ایسا ہی پیغام انور مقصود نے جگنو کے ذریعے نجم سیٹھی کو بھجوایاہے کہ جتنی سیکورٹی کا بندوبست لاہور فائنل کرانے کے لئے کیاجارہاہے اس سے آدھی سیکورٹی کے ساتھ کرکٹ میچ بغداد میں منعقد کرایاجاسکتاہے۔حکمرانوں کاکہنا ہے کہ پر امن طریقے سے پی ایس ایل کا فائنل لاہورمیں کرانا قومی عزت اور وقار کامعاملہ ہے۔خدا کرے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں منعقد ہواور ہر طرح سے خیر وعافیت رہے مگر عمران خان یہ کہنے کے لئے حق بجانب ہوں گے کہ حکومت نے بے تحاشہ سیکورٹی کے ساتھ فائنل تو لاہور میں کرالیامگر دھاتی ڈور کے ہاتھوں شکست کھائی۔کئی دہائیوں سے لاہور میں ہونے والی بسنت کے تہوار پر پنجاب حکومت نے پابندی عائد کی اور کرکٹ کا فائنل کرانے کے لئے قذافی اسٹیڈیم ،آس پاس کے علاقوں اور سڑکوں پر ناکہ بندی کرکے شہر یوں کو محصور کردیا گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف اور خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر پی ایس ایل کا فائنل میچ امن وامان سے کرانے کی بھاری ذمہ داری عائدہے۔آرمی چیف نے انہیں یقین دلایاہے کہ سیکورٹی کے بھرپور انتظامات کئے جائیں گے۔ دوسری طرف عمران خان ، سابق صدر آصف علی زرداری ،سرفراز نواز، جاوید میانداد ،محسن حسن خان اور بعض دوسرے حضرات کاکہنا ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے باعث انسانی زندگیوں کے حوالے سے حکومت کو محتاط رویہ اپنانا چاہئے۔عمران اور دوسرے احباب نے اگر ایسا کہاہے تو کیابرا ہے؟ اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ پنجاب حکومت کو سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کرنا پڑرہے ہیں۔وگرنہ مقام فیض سے لے کر کوئے دار تک وہ کونسی جگہ ہے جہاں دہشت گردوں کو سہولت کار میسر نہیں آئے۔

.
تازہ ترین