• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فوجی عدالتوں کے دائرہ کار پر بحث کمزور پڑ چکی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف مذہبی جماعتوں کے’’مذہب کے زیر اثر دہشت گردی ‘‘کے بیانیے کی بابت تحفظات پر قابو پانے میں کامیاب ہو چکی ہیں ۔لیکن پیپلز پارٹی اس موقف پر ابھی تک قائم ہے کہ قانونی ترمیم کا دائرہ کار کم ہوناچاہیے تا کہ مرکزی سیاسی جماعتیں غیر مذہبی بنیادوں پر قانون کا نشانہ بننے سے محفوظ رہیں۔اس خوف کی وجہ کراچی میں غیر ریاستی عناصر، جنہیں دہشت گردوں کا نام دیا جاتا ہے، کی رسائی دفتروں میں ہونے والی کرپشن تک ہونا ہے ۔ یہ نیا قانون فوجی عدالتوں کے دائرہ کار کو وسیع کرتا ہے مگر ان کی عملداری محض مزید دو سال تک ہے۔اگر پیپلز پارٹی اپنے موقف پر قائم رہتی ہے تو پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لئے ایک مشترکہ اجلاس کی ضرورت ہوگی ۔ پی پی پی سینیٹ میں اس کو روک سکتی ہے ، تاوقتیکہ اس کے تحفظات دور کردئیے جائیں۔
سویلینز کو ’’انصاف ‘‘ کے لئے فوجی عدالتوں کی ضرورت تب پڑتی ہے جب سویلین عدالتیں کثیر پہلو عدالتی نظام اور اپنی اتھارٹی کے باوجود انصاف کی فراہمی میںبری طرح ناکام ہوجاتی ہیں۔عدالتی نظام میں اصلاحات کی رپورٹس پر عمل درآمد کی کوئی کوشش حکومت یا عدلیہ کی جانب سے کبھی نہیں کی گئی۔غلطی پر کون ہے اور کیوں ہے؟قدرتی طور پر انگلیاں حکومت کی جانب اٹھتی ہیں ۔ہمیں ججوں کی تعداد ،تعلیم اور ٹریننگ میں اضافے کی ضرورت ہے ۔ہمیں گواہان کو بھی ججز اور وکلاکی سطح کا تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ہمیںحکومت میں ایک علیحدہ ،بہتر ین تربیت یافتہ اور متحرک عدالتی شعبے کی ضرورت ہے۔جب یہ مراحل طے کر لئے جائیں تو پھر ہمیں اپیلوں کے دائرہ کار کو کم کرنے کی ضرورت ہو گی تا کہ انصاف کی فراہمی کو تیز کیا جائے۔ہمارے ہاں بہت سے سیاسی معاملات بھی بلاوجہ عدالت میں لے جانے کی روایت موجود ہے ۔ اس کی وجہ سے جج حضرات غیر ضروری طور پر بوجھ تلے آجاتے ہیں۔
لیکن حقائق اپنی جگہ پر موجود ہیں کہ بنچ اور بار کی حمایت اور معاونت کے بغیر کوئی معنی خیز قانون سازی یا ایگزیکٹو ایکشن جو کہ عدالتی نظام کی اصلاحات کے لئے ہو نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔اگر بعض جج صاحبان غیر سنجیدہ پٹیشنز کی سماعت شروع کردیں اور سائل کی سنجیدگی دیکھے بغیر بدعنوانی کے خلاف کی جانے والی کارروائی کو روکنے کے لئے حکم ِ امتناعی جاری کردیں تو پھر انصاف کے تقاضے کس طرح پورے ہوں گے ؟اگر وکلا اگلی تاریخوں کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنا کیس تیار کرنے میں ناکام رہے تھے ، یا پھر اُن پر کا م کا بہت زیادہ بوجھ تھااوراُن کی درخواست مان لی جائے توفوری انصاف کا وعدہ کیسے پورا کیا جائے گا۔ اورعام فہم محاورہ ہے کہ تاخیر سے ملنے والا انصاف دراصل انصاف کا خون ہوتا ہے، اور سچی بات یہ ہے کہ پاکستان کا عام شہری عدالتی نظام کی طرف بہت پرامید نظروں سے نہیں دیکھتا ۔ ایک جمہوری نظام میں بار اور بنچ کا طاقتور ہونا انصاف کے لئے بہتر سمجھا جاتا ہے ، لیکن پاکستان میں اس کے برعکس صورت ِحال ہی بہتر ہے ۔ 2007-09ء کی وکلا کی تحریک ایک دودھاری ہتھیار ثابت ہوئی ۔ اس نے ایک طرف تو بار اور بنچ کو اتنی طاقت دے دی کہ وہ ایگزیکٹو کی تاریخی من مانی کے سامنے سراٹھا سکتے تھے ، تو دوسری طرف اس نے دونوں کو بے حد سیاسی بنا دیا ۔ نئی نسل کے کئی وکلا جارحانہ پن پیکر اور مارشل آرٹس کے ماہر بن کر میدان میں آگئے ۔ پولیس کے دوبدو لڑائی اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھی، بلکہ بعض افسوس ناک کیسز میں کچھ وکلا نے جج حضرات کے ساتھ بھی توہین آمیز رویہ اپنایا۔ ایک ماتحت عدالت میں ایک جج صاحب پر جسمانی حملے کی رپورٹ بھی سامنے آئی ۔تاہم وکلا کی دراز دستی کے باوجود ہم نے نہیں دیکھا کہ کسی وکیل کو جیل کی ہوا کھانی پڑی ہو۔ یہ بھی درست ہے کہ ملک میں توہین عدالت کے قانون کا عملی استعمال بہت کم دیکھنے میں آیا ہے ۔
اسی طرح بہت سے جج حضرات نے بھی جارحانہ پن اختیار کرلیا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ عدلیہ میں تقرریوں کا زیادہ تر پس ِ منظر سیاسی وابستگی ہوتی ہے ۔ بہت سے دوسرے درجے کے وکلا کی اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتی دیکھی گئی ۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اُنھوںنے اپنے باس کے سیاسی مفاد کا خیال رکھا تھا ۔ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے ماتحت عدلیہ کے معاملات درست کرنے میں تامل بھی بہت واضح دکھائی دیا۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے ناروا رویے پر کتنے جج حضرات کی تادیب کی ؟ آئینی ترمیم کی وجہ سے جج حضرات ایک خود کا ر نظام کے تحت ترقی پاتے ہیں، اور اس عمل میں ایگزیکٹو کی طرف سے مداخلت نہیں کی جاسکتی ۔ اس کی وجہ سے اب عدلیہ سب کا احتساب کرسکتی ہے لیکن اس کا احتساب نہیں کیا جاسکتا ۔
اس تمام پس ِ منظر میں فوجی عدالتوں کی ضرورت اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ اور پھر یہ غیر معمولی حالات ہیں، اور اس میں قوم نے غیر معمولی فیصلے ہی کرنے تھے ۔ تاہم ایک خطرہ اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ا س کی وجہ سے معمول کا سویلین نظام پہلے سے بھی زیادہ کمزوراور بے جان ہوجائے گا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ آخر کار ہمیں سویلین نظام کو درست کرنا پڑے گا۔



.
تازہ ترین