• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھ سے زیادہ بور دنیا میں اور کون ہو سکتا ہے کہ سارا پاکستان اس وقت کرکٹ کرکٹ کر رہا ہے اور مجھ بور کو کرکٹ سے دلچسپی ہی کوئی نہیں۔ میں تھوڑا سا مبالغہ کر گیا ہوں، دلچسپی ہوتی ہے مگر صرف اس وقت جب میچ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہو مگر پرابلم یہ ہے کہ پاکستان کو ہارتا دیکھ نہیں سکتا چنانچہ جب کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے، کرکٹ سے میری دلچسپی اسی لمحے ختم ہو جاتی ہے۔ دراصل میں بہت سست انسان ہوں، بچپن میں بھی کھیلنے کے لئے بستر سے نیچے نہیں اترا۔ چارپائی پر بیٹھے بیٹھے بہنوں کے ساتھ لڈو کھیل لیا کرتا تھا مگر ابا جی کو کمرے میں آتا دیکھ کر ہم بہن بھائی لڈو چھپا دیا کرتے تھے۔ ہمیں لڈو کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کا خیال تھا کہ بات لڈو سے شروع ہو کر تاش تک پہنچے گی اور پھر تاش سے جوئے کا آغاز ہو گا۔ چنانچہ NIP THE EVIL IN THE BUDکے محاورے پر عمل کرتے ہوئے ’’برائی‘‘ کا سر شروع ہی سے کچل دیا۔ مگر برائی کا سر کچلنا کوئی اتنا آسان تو نہیں چنانچہ ’’برائی‘‘ کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا جب تک ابا جی گھر سے باہر ہوتے۔
البتہ کرکٹ سے ملتا جلتا ایک کھیل ہم گھر کے قریب واقع ایک کھلی جگہ جسے ہم ’’کھولا‘‘ کہتے تھے، بڑے شوق سے کھیلا کرتے تھے۔ فرق یہ تھا کہ ایک تو اس میں وکٹیں نہیں ہوتی تھیں اور دوسرے گیند کا ٹھپا زمین پر نہیں براہ راست اس بلا نہیں ڈنڈے پر مارا جاتا تھا جو دوسری جانب کھڑے ’’کھلاڑی‘‘ کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ گیند کھلاڑی کی سمت ہوا میں اچھالا جاتا تھا اور زمین پر گرنے سے قبل اسے ہٹ کرنا ہوتا تھا، بس اس میں خرابی یہ تھی کہ کوئی ایک آدھ بے وقوف دوسری جانب کھڑے کھلاڑی کی قوت کا اندازہ لگائے بغیر شریفانہ طریقے سے بال ہوا میں اچھالتا تھا اور پھر پتہ نہیں چلتا تھا کہ بال گیا کدھر ہے۔ ہٹ اتنی زور دار ہوتی تھی کہ گیند کی تلاش میں گھروں کی چھتوں کی تلاشی لینا پڑتی تھی، ایک گیم اس کے علاوہ بھی تھی اور اس میں اور کرکٹ میں مماثلت یہ تھی کہ گیند اس میں بھی ہوتا تھا، فرق یہ تھا کہ گیند ربڑ کا ہوتا تھا__ اس میں نہ وکٹیں ہوتی تھیں اور نہ بلا یا ڈنڈا __ بلکہ جس کے ہاتھ میں یہ گیند لگ جاتی، وہ پوری قوت سے دوسرے کو دے مارتا۔ اس گیند میں کوئی اصول و ضوابط نہیں تھے بلکہ کوئی اخلاقی اصول بھی نہیں تھا چنانچہ یہ جسم کے کسی بھی حصے پر ماری جا سکتی تھی۔ کچھ خبیث قسم کے دوست تو گیند تاک کر کسی ایسی جگہ مارتے جس کے بعد ’’مضروب‘‘ وہیں ڈھیر ہو جاتا اور کافی دیر تک اٹھ نہ پاتا۔ اس دہشت گردانہ کھیل کو ’’پٹھو گرم‘‘ کہا جاتا تھا۔
جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ کرکٹ سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی مگر یہ عجیب اتفاق ہے کہ بچپن میں جتنی گیمیں بھی کھیلیں، وہ تقریباً سب کی سب کرکٹ کی ابتدائی شکل ہی کے زمرے میں آتی تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ اس دور میں کرکٹ ہوتا ہی نہیں تھا، ہوتا تھا مگر ہم نے تو وہی کھیل کھیلنا تھا جو ہمیں دستیاب تھا چنانچہ کرکٹ سے ملتی جلتی ایک گیم گلّی ڈنڈا بھی تھی۔ اس میں ایک گلّی ہوتی تھی اور ایک ڈنڈا ہوتا تھا۔ گلّی کی شکل کس سے ملتی تھی، آپ یہی سمجھیں کہ مجھے اس کا علم نہیں، بس لکڑی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوتا تھا جو دوسری طرف پھینکا جاتا تھا اور اسے ہٹ لگانا ہوتی تھی۔ اس دور میں آنکھوں کے ڈاکٹروں کا کاروبار خاصا پھیلا کیونکہ یہ گلّی اکثر آنکھوں میں بھی جا لگتی تھی۔ البتہ ایک گیم ایسی تھی جس کی کوئی مماثلت کرکٹ سے نہیں تھی۔ یہ کانچ کے بنٹے ہوتے تھے۔ یہ جوئے کی ایک قسم تھی جس میں ہارنے والے کو جیتنے والے کی خدمت میں کچھ بنٹے پیش کرنا پڑے تھے۔ ہوتا یہ تھا کہ گرائونڈ (جو ہمارا ’’کھولا‘‘ تھا) میں ایک ’’کُتھی‘‘ کھودی جاتی تھی، کُتھی کیا ہوتی تھی، یہ ایک چھوٹا سا سوراخ ہوتا تھا جس میں ایک فاصلے سے بنٹے لڑھکائے جاتے تھے اور جو یہ بنٹے کُتھی میں ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا تھا، وہ جیت جاتا تھا۔
تاہم واضح رہے یہ سب کھیل اور اس کے علاوہ پتنگ بازی مجھے ابا جی سے چھپ کر کرنا پڑتی تھی۔ ابا جی چونکہ جوانی میں خود فٹ بال کھیلا کرتے تھے لہٰذا انہوں نے مجھے خود فٹ بال خرید کر دی، جس سے میں اکیلا ہی کھیلا کرتا تھا کہ محلے کا کوئی بچہ اس میں میرا شراکت دار بننے کو تیار نہ تھا۔ اور یا پھر ابا جی مجھے مجید پہلوان کے اکھاڑے پر جانے کے لئے کہتے چنانچہ میں نے کچھ دن بلکہ اس دن تک پہلوانوں کے ساتھ زور آزمائی کی جب تک ایک بدبخت پہلوان نے میرا بازو نہیں توڑ (فریکچر) دیا۔ البتہ جب میرا خاندان وزیر آباد سے ماڈل ٹائون لاہور منتقل ہوا تو کچھ مہذب قسم کے کھیلا کھیلنے کا موقع ملا۔ ان میں ایک کرکٹ تھا بلکہ قابلِ بیان کرکٹ ہی تھا۔ پہلے کئی دن تو بلا پکڑنا ہی نہیں آیا، یہ سیکھا تو بجائے اس کے کہ میں گیند کو ہٹ کرتا، وہ اکثر مجھے ہٹ کرتی چنانچہ کچھ ہی دنوں میں طبیعت اس سے اچاٹ ہو گئی۔ بھلا یہ بھی کوئی گیم ہے جو محض مار کھانے کے لئے کھیلی جائے۔
دیکھ لیں، آج بھی سارے کھلاڑی سر، آنکھوں اور ٹانگوں کو گیند کی ضرب سے بچانے کے لئے کیا کچھ پہن کر گرائونڈ میں اترتے ہیں۔ سو کرکٹ کے ساتھ میری دلچسپی اب اتنی ہی رہ گئی ہے کہ میچ ہو اور ہمارا کوئی سورما انڈیا کو ناک چنے چبوا دے۔ مگر کیا کیا جائے فی الحال تو ہماری قوم ایک دوسرے کو ناک چنے چبوانے کی کوشش میں لگی رہتی ہے اور یوں اب اپنی ’’ناک‘‘ کی بھی کسی کو شرم نہیں رہی!

.
تازہ ترین