• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملوکیت کی باتیں بہت ہو چکیں، آج باتیں ہوں گی ملکیت (Ownership) کی۔ آپ کے پاس جتنی بھی چیزیں ہیں، جتنی بھی چیزیں آپ نے خریدی ہیں وہ آپ کی املاک (Property) ہے، آپ اس چیز کے مالک ہیں۔ جو چیز مکان، زرعی زمین وغیرہ آپ کو ورثے میں ملتی ہے، آپ اس کے بھی مالک ہوتے ہیں، وہ چیزیں آپ کی املاک ہوتی ہیں۔ وہ تمام چیزیں قانونی طور پر آپ کی ملکیت ہیں اور آپ کی ملکیت (Ownership) کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ کوئی فلسفہ نہیں ہے، عام سی بات ہے، اختراع ہے جس کو سمجھنے کیلئے آپ کو کسی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت وقت کا زیاں ہے۔ اب ہم آتے ہیں موضوع کے مرکزی نکتہ کی طرف۔ کتھا بیان کرنے کیلئے باقی ماندہ مختص جگہ میں ہم یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ کیسی کیسی چیزیں ہماری ملکیت نہیں ہوتیں۔ بلکہ کیسی کیسی چیزیں ہماری املاک میں شامل نہیں ہو سکتیں۔ کیسی کیسی چیزوں پر ہم ملکیت (Ownership) جتانے کا حق نہیں رکھتے۔ ہمیں بھولنا نہیں چاہئے کہ ایسی اشیا جن پر ہم ملکیت کا حق نہیں رکھتے، وہ اشیا ہم بیچ نہیں سکتے۔
ایک کسوٹی ہے جس پر پرکھنے سے ہم تصدیق کر سکتے ہیں کہ کیا چیز بہ ظاہر ہماری ہوتے ہوئے بھی ہماری نہیں ہوتی اور کیا چیز ہماری ہوتی ہے۔ میں آپ کو چونکانا نہیں چاہتا، میں چاہتا ہوں کہ بغیر کسی ابہام کے فقیر کی بات آپ تک پہنچے۔ اس سلسلے میں ایک مثال کافی ہے۔ ہماری اولاد، ہمارے بچّے ہماری املاک نہیں ہوتے حالانکہ بچّے ہمارے ہاں پیدا ہوتے ہیں، ہم ان کی پرورش کرتے ہیں، ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں، انہیں لائق فائق بنانے کیلئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے مگر وہ ہماری املاک نہیں ہوتے۔ انہیں توڑنے، مروڑنے، اپنے سانچے میں ڈھالنے اور بیچنے کا اخلاقی اور قانونی حق ہم نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس ہم اپنے صحن میں، گھر کے پچھواڑے میں بیج بوتے ہیں، درخت اگاتے ہیں، ہم ان درختوں کی تراش خراش کا حق رکھتے ہیں، ضرورت پڑنے پر ہم ان درختوں کو کاٹ سکتے ہیں، ان کی شاخیں اور تنے بیچ سکتے ہیں۔ اس عمل میں کسی قسم کی روک ٹوک کی گنجائش نہیں ہوتی۔ دیہات میں لوگ گائے، بیل، بکریوں کے ریوڑ پالتے ہیں، ان کی افزائش کرتے ہیں، ان کو بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ لہٰذا گائے، بیل، بکریوں کے ریوڑ اور گھر کے آنگن یا پچھواڑے میں کاشت کی گئی سبزیاں اور اگائے ہوئے درخت آپ کی املاک ہیں، آپ کی ملکیت (Ownership) کے زمرے میں آتے ہیں۔ آپ کاشت کی گئی سبزیاں بیچ سکتے ہیں، اگائے ہوئے درخت بیچ سکتے ہیں مگر آپ پال پوس کر بڑے کئے ہوئے اپنے بچّے بیچ نہیں سکتے، ان کا کاروبار نہیں کر سکتے۔ وہ اس لئے کہ آپ کی اولاد، آپ کے بچّے کسی بھی لحاظ سے آپ کی ملکیت نہیں ہوتے۔ آپ ان پر ملکیت (Ownership)قائم نہیں کر سکتے۔ ہم ماضی کے اوراق پلٹنا نہیں چاہتے، جب اس دور کے طاقتور قبیلے اور ممالک غلاموں کا کاروبار کرتے تھے۔ عورتیں اور مرد بیچے اور خریدے جاتے تھے، وہ خریدنے والے کی املاک بن جاتے تھے۔ خریدنے والا ان غلاموں کو مہنگے داموں پر کسی دوسرے ممالک کو بیچ سکتا تھا۔ وہ خودسر اور باغی غلاموں کے ساتھ جو چاہے وہ سلوک کر سکتا تھا۔ یہ ایک الگ موضوع ہے، اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ تاریخ کے پراسرار اور حیران کن ابواب ہیں، ان ابواب کو پڑھتے ہوئے انسان کے وجود میں پنپنے والے وحشی پن کو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ تمام تر مادّی ترقی کرنے کے باوجود آج کا انسان اپنے وجود میں موجود وحشی پن سے نجات حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ زیادہ پرانے واقعات نہیں ہیں جب انسان نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تھے اور منٹوں میں لاکھوں مرد، عورتوں اور بچّوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ لہٰذا زمانہ ماضی کی بات کرنے کے بجائے ہم زمانہ حال کی بات کرتے ہیں۔
آپ ایسی کسی چیز پر اپنی اجارہ داری قائم نہیں کر سکتے جو چیز آپ بیچ نہیں سکتے اور اسی طرح آپ ہر اس چیز پر اپنی ملکیت جتا سکتے ہیں جو چیز قانوناً آپ بیچ سکتے ہیں۔ آپ اپنا مکان بیچ سکتے ہیں مگر مکان میں موجود ہوا آپ نہیں بیچ سکتے۔ آپ کے مکان پر پڑنے والی سورج کی روشنی نہیں بیچ سکتے کیونکہ ہوا پر آپ اپنی ملکیت (Ownership) قائم نہیں کر سکتے۔ سورج کی روشنی آپ کی املاک نہیں بن سکتی، آپ سورج کی روشنی نہ خرید سکتے ہیں اور نہ بیچ سکتے ہیں۔ انسان کی ہوس گیری سے صرف ہوا اور سورج کی روشنی بچ پائے ہیں، قدرت کے دیگر وسائل پر انسان نے قبضہ جما لیا ہے، ان چیزوں کو انسان نے اپنی ملکیت میں لے لیا ہے۔ سورج کی روشنی، ہوا اور پانی قدرت کی دین ہیں۔ انسان کیلئے یہ تینوں چیزیں روشنی، ہوا اور پانی قدرت کے تحائف ہیں مگر انسان اپنی ہوس گیری کا غلام ہے، اس نے قدرت کی انمول دین پانی پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہمالیہ سے پھوٹ کر نکلنے والا دریائے سندھ جب تک ہندوستان سے گزرتا ہے، ہندوستان کی اجارہ داری میں ہوتا ہے۔ وہی دریائے سندھ جب پاکستان سے گزرتا ہے تو پاکستان کی اجارہ داری میں ہوتا ہے۔ پہاڑوں کا جو حصّہ ہندوستان میں ہوتا ہے وہ ہندوستان کی املاک ہوتا ہے اور پہاڑوں کا جو حصّہ پاکستان میں ہوتا ہے وہ پاکستان کی ملکیت میں آتا ہے۔ انسان نے ہر اس چیز کو آپس میں بانٹ رکھا ہے جس چیز کو وہ چھو سکتا ہے، Touchکر سکتا ہے۔ اس نے سمندروں کو بانٹ رکھا ہے، زمین کو بانٹ رکھا ہے، آسمان چونکہ تصوّر سے اونچا ہے اس لئے بندربانٹ سے بچ گیا ہے مگر اس کے باوجود انسان نے ہزاروں فٹ کی بلندیوں پر بھی اپنی اپنی اجارہ داری قائم کر دی ہے۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا فلاں ملک کے ہوائی جہازوں نے فلاں ملک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ دنیا میں فساد اور جنگ و جدل مادّی چیزوں کی خاطر ہوتے ہیں مثلاً زر، زن اور زمین مگر لازمی طور پر ایسا نہیں ہے۔ دنیا اور دنیا جیسی لاتعداد کائناتیں بنانے والے خالق پر اجارہ داری (Monopoly)قائم کرنے کیلئے انسان نے خون کے دریا بہا دیئے ہیں۔ قدرتی آفات میں اتنے لوگ اجل کا شکار نہیں ہوئے ہیں جتنی تعداد میں لوگ خالق پر اپنا حق جتانے کی خاطر آج تک مرتے رہے ہیں۔ بیچارا انسان ازل سے خسارے میں ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ وہ خالق کو چھو نہیں سکتا۔ جب تک آپ کسی کو چھو نہیں سکتے تب تک اس پر اپنی اجارہ داری قائم نہیں کر سکتے۔ چھونے کے باوجود آپ اپنی اولاد پر اجارہ داری قائم نہیں کر سکتے۔ آپ خالق کو صرف محسوس کر سکتے ہیں۔ اپنے وجود کے اندر اور وجود کے باہر ہر جگہ، ہر شے میں آپ خالق کو محسوس کر سکتے ہیں۔ آپ احساس کو Monopolize نہیں کرسکتے۔ صوفیا کرام کا قول ہے کہ ’’ازل سے انسان ایک خالق کو نیک ناموں سے اپنا خالق مانتا آیا ہے اور ابد تک مانتا رہے گا۔‘‘

.
تازہ ترین