• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کے عفریت سے ڈسے پاکستانی عوام ابھی کرکٹ کی بحالی پر خوشی منا رہے تھے کہ افغانستان کے پہاڑوں میں چھپے دہشت گردوں نے مہمند ایجنسی میں تین چیک پوسٹوں کو نشانہ بنا ڈالا۔ ’’جماعت الاحرار‘‘ نے اس سانحہ کی ذمہ داری قبول کرلی جس میں ہمارے پانچ سیکورٹی اہل کار جان کی بازی ہار گئے اور اب صوابی جھڑپ میں بھی ہم نے دو جوانوں کی قربانی دی ہے وزیراعظم نوازشریف نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’دہشت گرد پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن ہیں پاکستان کے ان دشمنوں کا ان کے مہلک نظریات سمیت صفایا اور خاتمہ کردیا جائے گا‘‘ ’’آپریشن ردالفساد ہر دہشت گرد کے خلاف ہے خواہ وہ ملک کے اندر سے کارروائی کررہا ہے یا باہر ہے‘‘ ہم خلوص دل سے افغانستان میں امن چاہتے ہیں اُسے مستحکم اور مضبوط ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ افغانستان میں امن پاکستان کے اپنے وسیع تر مفاد میں ہے ‘‘
وزیراعظم نوازشریف کا یہ جذبہ و ولولہ بلاشبہ لائقِ تحسین ہے لیکن بعض مسائل اتنے گمبھیر ہوتے ہیں کہ انہیں محض جذبے، طاقت یا لڑائی سے ختم نہیں کیا جاسکتا دہشت گردی کی لعنت بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اس کے لیے جہاں ملک کے اندر مختلف النوع اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے وہی بیرون ملک اپنی خارجہ پالیسی میں بھی عصری تقاضوں کی مناسبت سے، حکمت و فراست کو کام میں لاتے ہوئے غیر روایتی اسلوب اختیار کرنے کی اہمیت واضح ہے۔ سب سے سہل اور آسان وتیرہ یہ ہے کہ ہم اندرونِ ملک منافرت کی جذباتی فضا مسلط کرتے ہوئے اپنے نام نہاد دشمنوں کی تعداد یا فہرست بڑھاتے چلے جائیں یا یہ سوچ کر خوش ہو جائیں کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ اگر مقابلہ پتھروں سے ہی کرنا ہے تو پھر یہ ثابت ہوگا کہ ہم اکیسویں صدی کے جدید سائنٹیفک عہد میں نہیں بلکہ پتھر کے دور میں جی رہے ہیں کہا جاتا ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے جب بھی کوئی خرابی وقوع پذیر ہوتی ہے تو باشعور وہ ہوتا ہے جو جذبہ خود احتسابی کے ساتھ پہلے اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالتا ہے اور پھر دوسرے پر دلائل کے ساتھ یہ واضح کرتا ہے کہ اس کی کون سی اور کیا زیادتیاں ہیں۔
آج افغانستان کی سرزمین پر چھپے بہت سے گروہ ہمارے خلاف برسر پیکار ہیں اور پوری پلاننگ کے ساتھ اپنے دہشت گردوں کو حملہ آور ہونے کے لیے ادھر روانہ کرتے ہیں یقیناً انہیں ایسے نہیں کرنا چاہئے اور کابل حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دے مگر ہمارے کچھ کرم فرما اسی رو میں بہتے ہوئے جب سارا ملبہ افغان انتظامیہ یا ان کے حلیفوں پر ڈال کر سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو اسے کسی طرح بھی مسئلے کا حل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں سے افغان سرزمین پر گولے پھینک کر یا میزائل مار کر ہم دہشت گردی کا خاتمہ کردیں گے تو یہ کافی نہیں ہے ہم نے اٹھارہ روز طورخم اور چمن یا اسپین بولدک کراسنگ پوائنٹس کو مکمل بند کر کے بھی دیکھ لیا اس کے باوجود گھس بیٹھئے ادھر گھسے اور ہمارے پانچ جوانوں کی جانیں لے گئے اس نوع کے جنونی دہشت گرد اپنی وارداتوں کے لیے طورخم یا چمن بارڈر کے محتاج نہیں ہیں جائز راستوں کا استعمال تو جائز طریقوں سے آنے والے کرتے ہیں وحشیوں کے لیے تو چوبیس سو کلومیٹر پر محیط ڈیورنڈ لائن بہت وسیع ہے جسے بند کرنے سے ہر دو ممالک عاجز ہیں تو پھر کیا یہ بہتر ہوگا کہ کراسنگ پوائنٹس پر سیکورٹی چیکنگ کو قطعی سخت کرتے ہوئے تمام تر جدید انفراسٹرکچر کے ساتھ قانونی آمدورفت کو جاری و ساری کر دیا جائے دو دن کے لیے کھول کر پھر بندش لگانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے البتہ دوطرفہ تعلقات، بداعتمادی اور منافرت کی صورت نقصان صاف ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
بلوچستان اسمبلی نے بھی اس حوالے سے قرارداد منظور کی ہے افغان انتظامیہ پر تنقید کی ہم جتنی چاہے بوچھاڑ کریں مگر یہ یاد رکھیں کہ وہ کی مشکلات کا شکار ہیں پھر وزیراعظم نوازشریف کی وہی بات کہ دہشت گرد پاک افغان دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن ہیں جب ہم دونوں اقوام کو ایک مشترکہ حقیقی دشمن کا سامنا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ ایک دوسرے کو مطعون کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے مشترکہ اسٹرٹیجی اپناتے ہوئے ایمانداری و دیانت کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہو جائیں۔ اپنے یا بیگانے اور اچھے یا برے دہشت گرد کی تمیز سے بلند ہو کر ہر دو اطراف سے اس ناسور کی جڑیں کاٹیں جن کی نظروں میں انسانی جانوں کی حرمت ہے نہ انسانیت کی۔ قومی مشترکہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ ہم نے ان کے مہلک نظریات کا صفایا کرنا ہے۔ ہماری سابق وزیر خارجہ حنا ربانی صاحبہ نے بھی پاک افغان تنائو کا حل سفارت کاری کو ہی قرار دیا ہے تاکہ تلخیوں کو روکا جا سکے۔ جناب اشرف غنی کی حکومت کو بھی اس سلسلے میں وزیراعظم پاکستان کی طرح دستِ تعاون بڑھانا چاہیے۔
ہماری پاکستانی سوسائٹی اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کے لیے کتنی بے چین ہے اس کا اندازہ حالیہ کرکٹ معرکے میں عوامی دلچسپی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر کرکٹ کے سابق کھلاڑی نے جو غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کی ہے اسے کرکٹ کے شائقین نے ہی نہیں قوم کے تمام ذمہ دار طبقات نے نا پسند کیا ہے۔ اب انہوں نے پاکستان آنے والے غیرملکی کھلاڑیوں کے خلاف جو غیر معیاری الفاظ استعمال کیے ہیں اس سے ان کے اندر چھپی مایوسی و کڑواہٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور سمجھا جاسکتا ہے کہ کیا اس ذہنیت کا کوئی شخص میدانِ سیاست میں کامیابی کا حقدار ہے؟ ہمیں خوشی ہے کہ آج ہماری سیاسی و عسکری قیادت آپریشن ردالفساد پر ایکا کرتے ہوئے جس عزم نو کے ساتھ اٹھی ہے یہ آگہی و شعور اب اندرونِ ملک تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کی خوشبو سے پورا جنوبی ایشیا مہکے گا۔

.
تازہ ترین