• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صبح سویرے پیرومرشد بودی شاہ تشریف لے آئے ہیں اور خیر سے دروازے میں داخل ہوتے ہی انہوں نے باآواز بلند فرمان جاری کیا ہے کہ میرے لئے دیسی گھی کے تندوری پراٹھے تیار کرائو، ساتھ امرتسری ہریسہ ہونا چاہئے اور بعد میں میرا موڈ ہوا تو کوئی میٹھی چیز بھی کھالوں گا۔ میں نے بودی شاہ کے اس جلالی فرمان کے بعد عرض کیا کہ حضور! آپ تھوڑا سانس تو لے لیں، بیٹھ جائیں پھر حکم فرمائیں۔ بودی شاہ کا جلال پھر پھڑکا ’’.....حکم شکم چھوڑو، میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا ہے.....‘‘ خیر میں نے اس جلالی چہرے کو مزید کچھ عرض کرنے سے پرہیز ہی کیا، اپنے ملازم کو ہدایات دیں اور چپ کر کے بیٹھ گیا۔ بودی شاہ سے میری یہ خاموشی بھی ہضم نہ ہوئی تو فوراً کہنے لگا.’’.....چپ چپ کیوں ہو.....‘‘ میں نے عرض کیا پیر صاحب فیصلے کا انتظار ہے، پورا ملک جامد ہے، پوری قوم کی نظریں اسی فیصلے کی منتظر ہیں، میں بھی اسی بارے میں سوچ رہا ہوں۔ جواباً بودی شاہ اپنی گرج دار آواز میں بولا ’’.....چپ کیوں ہوتے ہو، سب ٹھیک ہو جائے گا، فیصلہ قوم کی امنگوں کے عین مطابق ہوگا، معزز ججوں نے دوران سماعت خود کہا تھا کہ فیصلہ تاریخی ہوگا، ہمیں اللہ کو بھی جواب دینا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہماری عدالتی تاریخ میں بعض فیصلے ایسے ہوئے جنہیں سراہا نہیں جاسکتا۔ مولوی تمیزالدین کیس اس کا ایک نمونہ ہے، دوسرا نمونہ بھٹو صاحب کا مقدمہ ہے، جس میں انہیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا، اس مقدمے کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل بحث کرتے رہے مگر انہوں نے عدلیہ کو دھمکیاں نہیں دیں، بھٹو کی پھانسی کے بہت بعد میں جب لاہور کے دو نامور صحافی جلاد تارا مسیح کا انٹرویو کرنے گئے تو اس کا گھر نہیں مل رہا تھا جب انہوں نے ایک دکاندار سے پوچھا کہ تارا مسیح کا گھر کدھر ہے؟ تو دکاندار نے جواب دیا کہ آپ سیدھے چلے جائیں، آگے بھٹو کالونی آجائے گی، تارا مسیح بھٹو کالونی میں رہتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو جبر کا سامنا کرنا پڑا، قلعے کاٹنے پڑے، جیلیں کاٹنا پڑیں، کوڑے کھانے پڑے، بعض کو پھانسیاں ہوئیں، شاہدہ جبیں کے بھائی پھانسی کے پھندے پر لٹک گئے، مرحوم جہانگیر بدر کوڑے کھا کر بھی جئے بھٹو کہتا رہا، قلعہ کاٹنے والوں میں فیصل صالح حیات بھی تھا۔ بھٹو کے پورے خاندان کو صعوبتوں سے گزرنا پڑا، پیپلز پارٹی آمریت کے خلاف جدوجہد کرتی رہی مگر اس کے لوگوں کو انصاف نہ مل سکا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ جب بے نظیر بھٹو شہید جلا وطنی کے بعد وطن واپس آئیں تو انہیں کبھی جیل میں ڈال دیا جاتا تو کبھی نظر بند کر دیا جاتا۔ بھٹو کی بیٹی کبھی ایک عدالت کا چکر لگاتی تو کبھی اسے ایک ہی دن میں دوسری عدالت میں جانا پڑتا۔ بے نظیر بھٹو کا شوہر ہونے کے ناطے آصف علی زرداری کو طویل ترین قید کاٹنا پڑی، 1985ء سے 2000ء تک کئی حکومتیں برطرف ہوئیں، اس دوران بھی پیپلز پارٹی کے لئے انصاف اور تھا اور مسلم لیگ کے لئے انصاف اور۔ جب اکتوبر 1999ء میں نوازشریف کو مشرف نے اقتدار سے ہٹایا تو صرف عمر قید کی سزا سنائی گئی اور پھر ایک معاہدے کے ذریعے نوازشریف کو خاندان سمیت جدہ جانے دیا گیا، مسلم لیگ کی پوری قیادت طویل عرصے تک قوم سے معاہدے کے متعلق جھوٹ بولتی رہی بالآخر سعودی شہزادے کو اسلام آباد آکر یہ معاہدہ لہرانا پڑا.....‘‘
بودی شاہ ایک لمحے کو رکا تو میں نے عرض کیا کہ کیا لمبی چوڑی داستان سنا رہے ہو۔ میرے اس جملے کو بودی شاہ نے جھٹک دیا اور کہنے لگا’’.....آپ کو یاد ہے کہ 1997ء میں مسلم لیگ ن کے ارکان اور کارکنوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا، اس حملے کے دوران ججوں کو خود کو بچانا مشکل ہوگیا تھا۔ اس کے باوجود 99ء میں عدلیہ نے نوازشریف پر غصے کا مظاہرہ نہیں کیا، البتہ ظفر علی شاہ کیس میں وہی ہوا جو مولوی تمیزالدین کیس کے ساتھ ملتا جلتا تھا، آپ کو یاد ہونا چاہئے کہ جب 2007ء میں عدلیہ کی آزادی کیلئے تحریک چلی تھی تو اس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت اے این پی، وکلا، سول سوسائٹی اور صحافی بھی شامل تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تمہارا سر سپریم کورٹ کے باہر پھٹ گیا تھا، زمرد خان کے بازو کو توڑ دیا گیا تھا مگر تمہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس پوری تحریک میں پیپلز پارٹی سب سے آگے تھی بلکہ اس تحریک کی ڈرائیونگ سیٹ چوہدری اعتزاز احسن کے پاس تھی، قمر زمان کائرہ نے بھی بہت ڈرائیونگ کی لیکن عجیب بات ہے کہ جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت کے چیف جسٹس نے چین نہ لینے دیا، روز سوموٹو لیا جاتا تھا، پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا، یوسف رضا گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف کو بھی بطور وزیراعظم سخت ترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے لوگ عدلیہ کے فیصلے بھی مانتے رہے اور دھمکیوں سے بھی باز رہے مگر اب کیا ہے، ایک کیس کا فیصلہ آنے والا ہے، اس سے پہلے مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے کیا کچھ نہیں کیا، آپ کو یاد ہے کہ گوجرانوالہ اور ہری پور کے جلسوں میں خواجہ سعد رفیق نے کہا ’’.....مہم چلائی جا رہی ہے، تذلیل کرنے کی، تضحیک کرنے کی، کیا اسے ہم برداشت کریں یا جواب دیں تو سن لو ہمارے سپورٹرز کہتے ہیں جواب دو۔ مسلم لیگ کے کارکنو! جاگتے رہنا، پہرہ دینا، عوام کا فیصلہ اصل فیصلہ ہوتا ہے.....‘‘ مشرف دور میں امارت کی سیڑھی چڑھنے والے صاحب مزید فرماتے ہیں ’’.....نوازشریف کسی کمزور اور چبائے جانے والے چنے کا نام نہیں ہے جو ہمیں چبانے کی کوشش کرے گا اس کے دانت ٹوٹ جائیں گے، ہم لوہے کے چنے ہیں، نوازشریف کی کتاب کے سارے صفحے پورے ہیں اگر کسی کو وہ صفحے پڑھنے نہیں آتے تو ہمارا قصور نہیں جنہیں وہ صفحے نظر نہیں آتے وہ آنکھیں کھول کر پڑھیں، تضحیک نہ کریں، تضحیک نہیں کروائیں گے.....‘‘ پنجاب کے وزیر قانون کے ارشادات بھی سن لیجئے ’’.....یہ سپریم کورٹ سے تم تابوت نکالو گے تو پھر اس ملک میں ہر گلی، چوک چوراہے سے تابوت نکلے گا۔ اگر عوامی مینڈیٹ سے علیحدہ کرنے کی کوئی کوشش کی گئی یا کوئی بھی اس کا حصہ بنا تو اسے عوام کے بے پناہ اور شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا.....‘‘ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں رانا ثناء اللہ پیپلز پارٹی میں ہوا کرتے تھے، ان پر مریم نواز کے خلاف ’’مہذب‘‘ تقریر کرنے پر ایف آئی آر بھی درج ہوئی تھی، جس کی ایک کاپی آپ کو چوہدری شجاعت حسین نے دی تھی۔ پیپلز پارٹی سے ہجرت کر کے ن لیگ میں جانے والے پرویز رشید کی بھی سن لو مگر یاد رہے کہ یہ ہجرت نامور صحافی نذیر ناجی کے ذریعے ہوئی تھی، پرویز رشید فرماتے ہیں ’’.....طنز کئے جاتے ہیں، تضحیک کے جملے بولے جاتے ہیں، کبھی کوئی پوچھتا ہے کہ میاں شریف صاحب اونٹوں پر پیسے اٹھا کر کیسے لے گئے تھے.....‘‘ مشرف دور میں قومی تعمیر نو بیورو کے سربراہ رہنے والے دانیال عزیز فرماتے ہیں ’’.....جو حقائق ہیں وہ سب کو تسلیم کرنا پڑیں گے، یہ کیس پہلی دفعہ نہیں آرہا.....‘‘ مریم اورنگزیب فرماتی ہیں’’.....کوئی بھی شخص جھوٹ کی بنیاد پر اور جھوٹے الزامات کی بنیاد پر تیسری دفعہ منتخب وزیراعظم تو کیا، ایک ایم این اے کوبھی ڈی سیٹ نہیں کرسکتا.....‘‘ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کا کہنا ہے کہ ’’صادق اور امین ہونا ہی اہم رہ گیا ہے.....‘‘ بیرسٹر محسن شاہنواز رانجھا کہتے ہیں ’’.....پاناما سے متعلق وزیراعظم سے سوالات نہیں پوچھے جاسکتے، کاروبار سے متعلق وزیراعظم سے سوالات نہیں پوچھے جاسکتے.....‘‘ چوہدری پرویز الٰہی کی حمایت کرنے والا طلال کہتا ہے ’’.....فیصلہ واضح اور بلیک اینڈ وائٹ آنا چاہئے، فیصلہ گرے نہیں آنا چاہئے.....‘‘ اب تم سوچو کہ اس ساری جملہ بازی کاکیا مطلب ہے، کہاں گئی توہین عدالت اور کہاں گیا عدالت کا احترام؟.....‘‘
جاتے جاتے عطاء الحق قاسمی کا شعر بھی سنتے جائیے؎
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہئے

.
تازہ ترین