• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حدِ ادب!
وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے:پاناما کیس، نو کمنٹس، محفوظ فیصلے پر قیاس آرائی عدالتی احترام میں خلل ہے۔ ن لیگ سے بڑھ کر سپریم کورٹ کا احترام کوئی دوسری سیاسی پارٹی نہیں کر سکتی۔ نواز شریف کی ساری توجہ ترقی پر ہے۔ 52ممالک سی پیک میں شامل ہونا چاہتے ہیں، سڑکوں کا جال بچھا دیا ہے، بڑے بڑے منصوبے پائپوں میں ہیں، ن لیگ کے کارنامے اس قابل ہیں کہ اس کے لئے بذریعہ قلم کنویسنگ شروع کر دی جائے شاید ہمیں بھی اس کی گزشتہ سے پیوستہ حکومت میں کوئی تین ٹانگوں والی کرسی مل جائے۔ ہم اینٹیں رکھ کر کام میں لے آئیں گے ۔کیا یہ اچھا نہیں کہ حکمرانوں پر تنقید کرنے کے بجائے ان میں شامل ہو جائیں کیونکہ ہمارے لکھے کا حکمران کیا عوام بھی نوٹس نہیں لیتے بلکہ ان کے خراٹوں کی آواز اور تیز ہو جاتی ہے۔ اکثر قابل افراد غریب ہوتے ہیں اور نااہل امیر ہوتے ہیں۔ امیروں کے چنبے کو اشرافیہ کہتے ہیں یعنی اکثر بظاہر شریف ہوتے ہیں اور غیب کا علم صرف خدا جانتا ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں باطن کا حال بتانے والے۔ دانیال عزیز جیسا بارعب شخص ہم نے کم ہی دیکھا ہے۔ ایک اینکر نے جب مریم نواز کے وومین پارلیمنٹرینز سے خطاب پر کچھ کہنے کی کوشش کی تو ان کا رُعب سرخ ہو گیا اور اینکر کو کہا مرکزی قیادت تک نہ پہنچیں ہاتھ پیچھے رکھیں، حد ِادب! مگر انہوں نے مراد سعید سے گفتگو مودبانہ رکھی اور مراد سعید شعر سناتا رہا۔ حکومت کا سی پیک کارنامہ لائق تحسین ہے اس کا اعتراف سب کو ہے۔ سی پیک کے ثمرات سے ہماری معیشت میں انقلاب آ سکتا ہے جو حق بات ہے وہ ہم نے لکھ دی ہے باقی کہا سنا معاف کر دیا جائے، عین نوازش ہو گی۔
وقت نے کیا، کیا حسیں ستم!
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف:اشرافیہ کا رویہ نہ بدلا تو پسا ہوا طبقہ وسائل چھین لے گا، یہ بیان پڑھ کر دل نے چاہا کاش شہباز شریف پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتے کیونکہ پسے ہوئے کو پسا ہوا ہی بچا سکتا ہے۔ بہرحال شریف خاندان بھی کسی زمانے میں پسے ہوئے طبقے میں شامل تھا، اپنی محنت سے ہی اس قابل ہوا کہ اشرافیہ میں شامل ہو سکے۔ اب اگر وزیر اعلیٰ یہ کہیں کہ وہ اشرافیہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے تو یہ کفرانِ نعمت ہو گا البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی سوچ پسے ہوئے غریب طبقے جیسی ہے مگر ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ انہوں نے یہ جو اشرافیہ کو پسے ہوئے طبقے کے ’’بی ہاف‘‘ پر تڑی لگائی ہے کہ وہ ان سے وسائل چھین سکتا ہے، تو یہ جملہ کتنے ہی ہمارے اندر کے خوف کہہ گیا، پسا ہوا طبقہ اور پسا ہوا آٹا بھی برابر نہیں کیونکہ پسا ہوا آٹا بھی اسی کو پیستا ہے، کوئی پس کر ظالم بنتا ہے کوئی پس کر مظلوم، یہ وقت کی چکی بھی عجیب ہے، کسی کو پیس کر کارآمد اور کسی کو بیکار بنا دیتی ہے۔ سب لوگ اشرافیہ نہیں بن سکتے مگر ان کے پاس ضرورت بھر تو جینے کا معقول سامان ہونا چاہئے بس اتنی سی خواہش ہے پسے ہوئے طبقے کی، شاید مسلے ہوئے پھولوں نے بلبلوں سے کہا ہو گا؎
بلبلو! تم سی ہزاروں کا گلا بیٹھے گا
اٹھ کھڑے ہوں گے جو فریاد و فغاں میں ہم تم
یہ پسے ہوئے لوگ مسلے ہوئے پھول ہیں، ان میں سے ضرور کوئی پھر سے اگے گا اور چمن میں خزاں لانے والوں کی دوڑیں لگا دے گا، دنیا میں ایسا ہوتا آیا ہے ’’یہ زمانہ ہے جسے ہم (اللہ تعالیٰ) لوگوں کے درمیان گردش میں لاتے ہیں‘‘ ؎
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
میں نوید ِ وصل سن کر مر گیا!
تحریک ِ انصاف کے رہنما عارف علوی:لگتا ہے حسین حقانی کا معاملہ بھی دفن ہو جائے گا۔ بانی ’’پی ایس ایل نجم سیٹھی‘‘ حقانی کے خلاف کمیشن بنانے کی بات صرف عوام کے لئے ہے۔ ہمارے ہاں گڈ گورننس کا مطلب کفنانا دفنانا ہے اسی طرح حکومتیں لمبی کالی سڑکوں پر رواں دواں رہتی ہیں۔ حمود الرحمٰن کمیشن سے کمیشن کا آغاز ہوا اور یہ نسخہ اتنا چلا کہ فقط ’’کمیشن‘‘ رہ گیا۔ کمیشن، کمیٹی یہ دو پناہ گاہیں عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں ایک خاص حالت پر ہپناٹائز کرنے کو کہتے ہیں اور خواص کو کچھ بتانے سنانے دکھانے کی اس لئے ضرورت نہیں ہوتی کہ خواص ایک گھرانہ ہے اس ملک میں اپنا پیٹ تو کجا، اپنی ’’وکھی‘‘ بھی حجاب میں رکھتا ہے۔ حسین حقانی غریب کا بال ہے، کچھ محنت کچھ مفلسانہ ہوشیاری سے طبقہ ٔ اشرافیہ تک تو نہیں اس کے قریب پہنچ گیا تھا اور سفیر بنایا گیا تو جو حکم حاکم نے دیا مرگ مفاجات سے بچنے کے لئے مان لیا۔ وہ براہِ راست تو غدار نہیں بالواسطہ غدار ہےاور اصل غدار پردے میں ہے، جسے اس کے پیٹی بھائی بٓذریعہ کمیشن سازی تحفظ دیں گے کیونکہ اشرافیہ ایک دوسرے کی سہولت کار ہوتی ہے۔ عوام سے آج کے دور میں کچھ چھپانے کی لنگڑی کوشش سے وہ کماحقہ آگاہ ہوتے ہیں مگر وہ اس قدر تھکا دیئے گئے ہیں کہ ’’خصماں نوں کھان‘‘ کہہ کر لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ وہ حکومت کو نیند آور گولی کے طور پر استعمال کرتے اور اس کے بے شمار مابعد اثرات کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ اور زمانہ تھا جب عوام جھنجھلا کر کہتے تھے ؎
خیالِ زلف میں سرانے نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل اب لیکر پیٹا کر
بلکہ اب وہ سانپوں کو دودھ پلاتے ہیں۔ اگر حقانی کو سفارت سے فارغ نہ کیا جاتا تو آج یہ کمیشن برائے کمیشن بنانے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی۔ ہمارے ہاں غریب عوام کے قبرستان ان کے قاتل کمیشنوں کمیٹیوں کے قبرستانوں سے کم نہیں۔ حکمرانوں کو تو نہ مرنے کی فکر ہے نہ قیامت کا ڈر۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
یہ تین عناصر ہوں تو!
٭ اعتزاز احسن:وزیراعظم کو سزا نہیں تو کلین چٹ بھی نہیں ملے گی۔
وہ بھی کلین شیو آپ بھی کلین شیو، کلین چٹ کی کیا ضرورت ہے۔
٭ شیخ رشید:’’نون‘‘ یا قانون میں سے ایک کا جنازہ نکلے گا۔
یہ قافیے سے قافیہ ملانے کی بھی کیا ضرورت ہے؟
٭ ’’خادم پنجاب زیورِ تعلیم پروگرام‘‘ کا آغاز۔
اچھا پروگرام ہے اگر چلے تو !
٭ لیڈی ڈاکٹر نے کاہنہ اسپتال کے انچارج کو لیڈی ہیلتھ وزیٹر کی حمایت پر تھپڑجڑ دیا۔
ایک ڈاکٹر کو ڈاکٹر کی حمایت کرنا چاہئے تھی، یہ لیڈی ہیلتھ وزیٹر کو کیوں رقیب بنا دیا؟
٭ زرداری، گیلانی، حقانی پر کورٹ مارشل کے مقدمہ کیلئے درخواست دائر۔
خالی جگہ پُر کریں:’’یہ تین عناصر ہوں تو بنتا ہے......‘‘

.
تازہ ترین