• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے تعلیم کے شعبے کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تعلیم اہم ترین سرمایہ کاری ہے جو حکومت اپنے قیمتی سرمائے یعنی ملک کے بچوں پر کرسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھاکہ ملک کی ترقی کے ان کے خواب کی تعبیر کی کنجی تعلیم ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جون 2013میں جو معاشی جائزہ جاری کرایا تھا اس میں قومی تعلیمی پالیسی 2009کے اس عزم کا پھر اعادہ کیا گیا تھا کہ حکومت 2015تک مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے تعلیم کی مد میں7 فیصد مختص کرنے اور 2015تک ہی ہر بچے کو مفت لازمی پرائمری تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ 30جون 2017کو ختم ہونے والے مالی سال میں بھی وفاق اور چاروں  صوبے مجموعی طور پر تعلیم کی مد میں صرف تقریباً 2.5فیصد ہی خرچ کر رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ 2050تک بھی ملک کا ہر بچہ اسکول نہیں جا رہا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے 2013کے انتخابی منشور میں کہا گیا تھا کہ ملک میں علاج معالجے کی سہولتیں قطعی ناکافی ہیں چنانچہ مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے صحت کی مد میں 2فیصد خرچ کئے جائیں گے یعنی ان اخراجات میں تین گنا اضافہ کیا جائے گا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 4برسوں میں وفاق اور چاروں صوبوں نے اس مد میں قابل ذکر اضافہ نہیں کیا۔ تعلیم و صحت کے ضمن میں چند حقائق نذر قارئین ہیں۔
(1)وطن عزیز میں 5سے 16برس تک کی عمر کے 22.6ملین سے زائد بچے اسکول ہی نہیں جا رہے۔ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے عالم اسلام کی پہلی جوہری طاقت پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔
(2)وزیرملکت برائے تعلیم نے تسلیم کیا ہے کہ ملک کے 40فیصد اسکولوں میں بجلی نہیں ہے، 29فیصد اسکولوں میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے اور 25فیصد اسکولوں میں چار دیواری ہی نہیں ہے۔
(3)پاکستان میں شرح خواندگی جنوبی ایشیا کے ملکوں کی اوسط سے کم ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے بدانتظامی، نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے ملک میں ہر سطح پر تعلیم کا معیار بھی گرا ہے اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومتی شعبے کی یونیورسٹیوں کے چانسلرز صرف ماہرین تعلیم ہی ہوں۔
(4)دہشت گردوں نے ایک حکمت عملی کے تحت پاکستان کے تعلیم کے شعبے کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق 2007سے 2015تک دہشت گردوں نے پاکستان میں تعلیمی اداروں پر 867حملے کئے جبکہ صوبائی حکومتیں بھی تعلیمی اداروں کی حفاظت کے ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس پس منظر میں یہ بات باعث تشویش ہے کہ چاروں صوبوں نے بھی متفقہ طور پر منظور شدہ قومی تعلیمی پالیسی 2009سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے 2016اور 2017کے دو مالی برسوں میں تعلیم کی مد میں اسی پالیسی کے ہدف سے تقریباً 2700ارب روپے کم مختص کئے ہیں۔
(5)عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق GDPکے تناسب سے پاکستان صحت کے شعبے میں صرف 0.9فیصد خرچ کرتا ہے۔ جبکہ بھارت میں یہ تناسب 1.4فیصد، سری لنکا میں 2.6فیصد اور تھائی لینڈ میں 5.6فیصد ہے۔
(6)بین الاقوامی غذا پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 118ملکوں میں سے صرف 10ملکوں میں بھوک کی صورتحال پاکستان کے مقابلے میں خراب ہے۔ واضح رہے کہ رپورٹ میں آبادی کا تناسب جسے متوازن غذا میسر نہیں،5 برس سے کم عمر کے بچے جن کا وزن قد کے لحاظ سے کم یا عمر کے لحاظ سے قد کم اور اتنی ہی عمر کے بچوں کی شرح اموات کو معیار بنایا گیاہے۔
(7)صحت کے شعبے میں2030 کیلئے جو اہداف مقرر کئے گئے ہیں ان کی پہلے سال کی کارکردگی کی رپورٹ میں 188ملکوں میں سے 148ملکوں کی کارکردگی پاکستان سے بہتر قرار دی گئی ہے۔
(8)آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردی کی ہولناک واردات کے بعد سول و ملٹری لیڈر شپ کی اجتماعی دانش کے تحت ایک 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا لیکن ان نکات میں تعلیم و صحت کے شعبے کے تحفظ اور بہتری کو اہمیت ہی نہیں دی گئی۔ اس طرف اب توجہ کرنا ہوگی۔
اب اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں وعدے کے مطابق رقوم مختص نہ کرنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ وفاق اور چاروں صوبے ایک مقررہ رقم سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پر ٹیکس نافذ اور وصول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ اس سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو تو ماضی میں بھی اقتدار ملتا رہا ہے مگر صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی ہے۔ 2013کے تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں کہا گیا ہے کہ (الف)ہر قسم کی آمدنی بشمول زراعت اور غیر منقولہ جائیداد سیکٹر پر (موثر طور پر) ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ (یہ دونوں ٹیکس صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں) (ب)2018تک تعلیم کی مد میں GDPکا 5فیصد اور صحت کی مد میں 2.6فیصد خرچ کیا جائے گا۔ (ج)’’نرم ٹیکس ایمنسٹی اسکیم‘‘ کا اجرا نہیں کیا جائے گا۔ صوبوں کو اس اصول پر عمل کرنا ہو گا کہ جس غیر منقولہ جائیداد کی مالیت کم دکھلائی جارہی ہو اسے قومی ملکیت میں لے لیا جائے۔ چنانچہ صوبوں کو اس ضمن میں کردار ادا کرنا ہوگا۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی حکمراں جماعت نے اپنے انتخابی منشور کے بیشتر نکات پر عمل نہیں کیا۔ واضح رہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت کے شعبے صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں جبکہ زرعی ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس کے شعبے پہلے سے ہی صوبوں کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے چند ماہ قبل ٹیکس چوری یا ناجائز آمدنی سے بنائی ہوئی جائیدادوں پر انتہائی نرم شرائط پر ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کیا تھا جس سے آج بھی قومی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی حکومت کیلئے سنہری موقع ہے کہ وہ اپنے منشور کی روشنی میں یہ اعلان فوری طور پر کردے کہ صوبے بھر میں جائیدادوں کے ’’ڈی سی ریٹ‘‘ بڑھا کر مارکیٹ کے نرخوں کے برابر کئے جارہے ہیں اور یکم جولائی 2017سے جائیدادوں کی خرید و فروخت صرف ’’ڈی سی ریٹ‘‘ پر ہوگی جو کہ ظاہر ہے کہ FBRکی اعلان کردہ مالیت سے زائد ہوگی۔اس فیصلے سے جائیداد کی خرید و فروخت کے معاملات میں کالے دھن کا استعمال نہیں ہو سکے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پھر دوسرے صوبوں کو بھی بادل نخواستہ ایسا ہی فیصلہ کرنا پڑے گا اور وفاق کے پاس اگلے مالی سال میں اس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو جاری رکھنے کا جواز ہی نہیں رہے گا۔ اس طرح صوبوں کو ٹیکسوں کی مد میں جو اضافی آمدنی ہوگی وہ تعلیم و صحت کے شعبے میں بہتری لانے کیلئے استعمال کی جاسکے گی۔ اسی طرح اگر ٹیکس کی چوری اور کرپشن سے بنائے گئے کئی ہزار ارب روپے کے ’’ملکی پاناماز‘‘ پر ہاتھ ڈالا جائے تو اس سے حکومت کو اتنی اضافی آمدنی ہو جائے گی کہ اگلے مالی سال میں GDPکے تناسب سے تعلیم کی مد میں 7فیصد اور صحت کی مد میں 2فیصد مختص کرنا ممکن ہوگا۔



.
تازہ ترین