• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
باچا خاں اور خاں عبدالولی خاں کتنے بڑے انسان تھے جنہوں نے ساری زندگی عدم تشدد اور انسان دوستی کا پیغام دیا لیکن ان مبارک ناموں سے منسوب یونیورسٹیوں میں انسانیت کا خون کتنی بے دردی سے بہایا گیا ہے۔ اگر وہ ظلم و بربریت کا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تو ایسی زندگی انہیں موت سے بدتر محسوس ہوتی۔ باچا خاں یونیورسٹی میں دہشت گردوں نے جس طرح جواں لاشے گرائے تھے آج ولی خاں یونیورسٹی میں شدت پسندوں نے ایک نوجوان طالبعلم کے ساتھ اس سے بدتر سفاکی کا دل دہلا دینے والا مظاہرہ کیا ہے۔ کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ پارٹیشن پر آگ اور خون کا جو طوفان اٹھایا گیا اس کا جواز کیا تھا؟ برسوں ساتھ رہنے والے جب چھُرے گھونپ رہے تھے اس وقت اُن کی انسانیت کہاں چلی گئی تھی؟ آج جب ایک تنہا اور نہتے نوجوان پر سینکڑوں تماش بینوں کی موجودگی میں درجن بھر درندے پل پڑے تھے لاٹھیوں اور ٹھڈوں کے ساتھ اپنے تئیں ثواب دارین حاصل کر رہے تھے، مقدس نعروں کی گونج میں یہ حیوانیت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ جو شخص ایک مرغی ذبح ہوتے نہ دیکھ سکتا ہو وہ ایک پڑھے لکھے نوجواں کو یوں سنگسار ہوتے کیسے دیکھ سکتا ہے۔ ایک گرے پڑے خون میں نہائے انسان کا اتنی بے دردی سے قتل۔۔۔!
اخبار میں خبر دیکھی ’’عبدالولی خاں یونیورسٹی مردان میں مشتعل طلبہ کے ایک گروپ نے توہین مذہب کے الزام پر تشدد اور فائرنگ کر کے شعبہ صحافت کے جواں سال طالب علم مشال خاں کو قتل کر دیا۔ بدقسمت مشال خاں بھاگ کر اپنے کمرے میں پہنچا تاہم درجنوں طلبہ نے اس کا تعاقب کر کے کمرے کا دروازہ توڑا اس پر لاٹھیوں مکوں اور لاتوں سے حملہ کر دیا شدید تشدد کے بعد اُسے گولی مار کر موت کے گھات اُتار دیا، لاش کو جلانے کی کوشش بھی کی۔ اتنی سفاکی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ ظلم و زیادتی کی شکار ہماری نوبیل انعام یافتہ بچی ملالہ یوسف زئی نے بھی اس اندوہناک سانحہ پر دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن نے کہا ہے کہ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا سماج کس حد تک خون کاپیاسا ہو چکا ہے۔ ایسی بربریت کے سامنے خاموشی شریک جرم ہونے کے مترادف ہے۔ پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے مشال خاں کے سفاکانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے، علامہ طاہرالقادری اور دیگر علماء کے بیانات بھی آئے ہیں کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے۔ اے این پی کے رہنما زاہد خاں نے کہا ہے کہ نوجوان طالبعلم مشال خاں کو جرم ثابت کیے بغیر مارا گیا ہے، اس لئے ہم اسے شہید کہیں گے۔اگرچہ ہماری قومی اسمبلی میں بھی اس سانحہ پر غم و غصے کی گونج سنائی دی ہے اور مقتول طالب علم مشال خاں کے لئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی ہے لیکن ہماری رائے میں وزیراعظم نواز شریف کا بھی اس حوالے سے مذمتی بیان سامنے آنا چاہئے تھا۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا بیان سب سے واضح ہے جنہوں نے اس واقعہ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے گی۔ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ’’اب تک کی تحقیقات میں کوئی ایسے شواہد نہیں ملے کہ مشال نے دین کے خلاف کوئی بات کی ہو۔ مقتول بچے کے موبائل ریکارڈ اور سوشل میڈیا اکائونٹ سے بھی کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں ملی۔ اگر نئی نسل جوش میں آکر قتل کرنے لگے تو ملک غلط سمت میں جائے گا پھر کوئی بھی اُٹھ کر کہے گا کہ فلاں نے یہ بات کہی ہے، جا کر اُسے قتل کر دو۔ یہ تو بربریت ہے ہم سانحہ مردان کو مثال بناکر ایسی کارروائی کریں گے کہ لوگ آئندہ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے ڈریں گے‘‘۔ ہماری نظر میں اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ قانون پر عملداری میں اتنی جان ہو کہ لوگ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے ڈریں۔ ہمیں وزیراعلیٰ کی اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ پولیس یا انتظامیہ کی کوتاہی نہیں ہوئی ہے۔ جب بلوے کی منصوبہ بندی ہوتی نظر آرہی تھی، یونیورسٹی انتظامیہ نے اس پر قابو پانے کا فوری اہتمام کیا نہ ہی موجود پولیس کا رول سوائے لاش بچانے کے، کہیں دکھائی دیا۔ اگر کوئی ایسا مثبت کردار ادا کیا گیا ہوتا تو اس گھناؤنی بربریت کو روکا جا سکتا تھا۔
اب ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں جیسے حیدر ہوتی صاحب بھی کہہ رہے ہیں کہ کوئی جرم ہوا ہے یا نہیں ہوا، اس کا فیصلہ کرنے کا حق کسی فرد کو حاصل ہے نہ افراد کے کسی گروہ کو اور نہ ہی کسی تنظیم کو۔ قانون نے یہ حق عدالتوں کو دے رکھا ہے۔ وطنِ عزیز میں جیسا تیسا ایک عدالتی نظام موجود ہے، نظام میں اگر کوئی خرابی ہے تو اس کی اصلاح کی جائے مگر کسی کو اپنے تئیں خود ساختہ جج بننے کا کوئی حق نہیں اور نہ کسی جج کو قانونی قواعد و ضبوابط تہہ وبالا کرنے کا حق ہے۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا انٹرنیٹ پر جعلسازیاں نہیں ہوتی ہیں، کیا فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس نہیں بنائے جاتے؟ کیا چیزوں کو بیان کرنے میں لوگ مبالغہ آرائی نہیں کرتے ہیں؟ کیا ہماری سوسائٹی میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا بنا کر پیش نہیں کر دیا جاتا؟ اس سب کے باوجود اتنا اشتعال! جب وہ نوجوان روتے ہوئے چلا رہا تھا کہ میں صوفی ہوں، میں عظیم ہستی کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا، اپنے کمرے میں اُس نے انگریز ی میں کلمہ طیبہ کا ترجمہ لگا رکھا تھا تو کیا ان لوگوں نے اُس کا سینہ چیر کر ایمان دیکھنا تھا۔
ہم سب اجتماعی طور پر سوچیں کہ ہم مذہبی جنون میں اپنی نئی نسلوں کو کس طرف لے جا رہے ہیں۔ اپنے ان رویوں سے ہم اقوامِ عالم کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ آخر میں ذرا اس بے دردی سے قتل ہونے والے نوجوان کے بدنصیب بوڑھے باپ کا بیان تو پڑھیے: ’’مشال کو میں نے بڑا کیا۔ کیسے کیا یہ تو میرا خدا ہی جانتا ہے، میرے بیٹے کا تعلق شعبہ صحافت سے تھا، وہ سسٹم کی اصلاح اور انصاف کی بات کرتا تھا۔ وہ پیغمبر اسلامؐ کی باتیں کرتا تھا وہ حضرت عمرؓ کے نظام کی مثالیں دیتا تھا، وہ بہت فرمانبردار، حلیم الطبع، صبر اور برداشت والا تھا۔ بھائی اور بہنوں کو والدین کا خیال رکھنے کی تلقین کرتا تھا۔ وہ دورِ جدید کے نظام کا حامی تھا، وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا تھا، اس کی زیادہ تر دوستی کتاب کے ساتھ تھی اس کی زندگی کا موضوع علم تھا۔ مشال علم کا متلاشی تھا، اس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف علم کا حصول تھا‘‘ والدہ کے الفاظ قابلِ ملاحظہ ہیں ’’میں نے اپنے بیٹے مشال کو یونیورسٹی تعلیم کے لئے بھیجا تھا تاکہ اس کا مستقبل روشن ہو لیکن محض الزام پر میرے بیٹے کو تشدد سے مار دیا گیا، یہ کہاں کا انصاف ہے۔ اس کے قاتلوں سے بھی ایسا ہی سلوک ہو ہمارا سرمایہ ضائع ہو گیا۔ جب گھر آتا تو سب کو نصیحتیں کرتا تھا کہ لوگوں سے اچھا رویہ رکھا کریں۔ مجھے فون پر کہا کہ ماں جمعہ کو گھر آئوں گا لیکن آج خون میں لت پت اس کی لاش آگئی‘‘ بہن کہتی ہے ’’میرا بھائی میرا دوست بھی تھا، استاد بھی کیونکہ جب مجھے کوئی چیز ٹیچر نہیں سمجھا پاتی تھی تو میرا بھائی مجھے سمجھا دیتا تھا ہر وقت اس کے ہاتھ میں کتاب اور قلم ہوتا تھا‘‘۔



.
تازہ ترین