• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ‘ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

اسلام آباد (طاہر خلیل) چائے کی پیالی میں جو طوفان اٹھایا گیا تھا بالاخر کسی کو ڈبوئے یا پار لگائے بغیر اتر گیا‘ اردو شاعری اس منظر نامے کے کئی عنوان لکھ سکتی ہے بحرف غالب‘ ہے تھی خبرگرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے‘ دیکھنے ہم بھی گئے پر تماشا نہ ہوا‘ یا پھر بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا‘ جو چیرا تو اک قطرہ خون نکلا اور سارے عنوان زبان اردو کے اس محاورے پر آکر گویا اپنی عاجزی تسلیم کرتے ہیں جس میں کسی پہاڑ کے کھودنے کا ذکر ہے کہا گیا تھا کہ فیصلہ تاریخی ہوگا جو نسلیں یاد رکھیں گی۔ بصد احترام فیصلہ تاریخ سے زیادہ حساب کے مضمون کا لگتا ہے جس میں گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے نسلیں گزر جائیں گی‘ ہاں اس سے انحراف قطعاً ممکن نہیں کہ اس فیصلے کی سیاسی‘ قانونی‘ آئینی‘ پارلیمانی اور اس سے بڑھ کر اخلاقی اور سماجی بازگشت بہت دور تک جائے گی۔ سیاسی محاذ آرائی تو کل دو بجے کے بعد ہی سوا نیزے پر آگئی تھی جب تمام اخلاقیات اور تہذیبی طرز معاشرت کو ٹھوکر مار کر دونوں اطراف کے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار مصاحبوں نے دشنام طرازی میں وہ سکہ زبان استعمال کی کہ ہماری روایات کی قطعی نفی کرتی ہے۔ اس باب میں دونوں اطراف کے آپے سے باہر ہوتے ہوئے نشانہ بازوں کو صرف اتنا یاد دلادیں کہ محاذ آرائی کے نتیجے میں چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں‘ مقدمے میں ایک اہم نقطہ وزیراعظم کے ایوان میں دئیے جانے والے بیان کی حیثیت اور وزن سے متعلق ہے اب تک کی پارلیمانی روایات اس زعم میں مبتلا تھیں کہ ایوان وہ مقدس مقام ہے کہ جہاں میرافلاک کی اس کارگہ شیشہ گری میں سانس بھی آہستہ لیتے ہیں‘ فیصلہ اس بابت مکمل خاموش ہے تو گویا آج کے بعد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے؟ پارلیمنٹ کے باب میں ایک نئی روایت پر مہر ثبت کردی گئی ہے ۔
تازہ ترین