• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دیگر شعبوں کی طرح صحافت کے متعلق بھی کئی لطیفے بنے ہوئے ہیں، مثلاً اخبارات میں خبریں، رپورٹرز کے نام سے یا ان کی کریڈٹ لائن سے شائع ہوتی ہیں اسی طرح کچھ خبریں مختلف قومی و بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں کی کریڈٹ لائن سے بھی شائع ہوتی ہیں اس کا مطلب ہوتا ہے کہ جس خبر پر ایجنسی کانام ہو اس سے اخبار کے اپنے رپورٹر کا تعلق نہیں ہوتا لیکن کچھ قارئین اس سے نابلد ہوتے ہیں اسی طرح کچھ خبروں پر کریڈٹ لائن کی جگہ (پ ر) لکھا ہوتا ہے ، پ ر سے مراد پریس ریلیز ہوتا ہے جو ان اداروں یا تنظیموں یا کسی بھی جماعت کی خبر ہوتی ہے جو وہ خود بنا کر اپنے ادارے یا اپنے ادارے کی شخصیات یا کسی بھی ایشو پر اپنا مؤقف دیتے ہیں۔ عموماً پ ر کے حوالے سے اخبارات کو بھیجی جانے والی خبریں وضاحتی بیان سے متعلق ہوتی ہی، مثلاً کسی سیاسی لیڈر نے ایک انٹرویو دیا یا کسی جلسے میں تقریر کی یا پارلیمنٹ جیسے معزز فورم پر تقریرکی اور پھر تقریر کے بعد آنے والے ردعمل کو دیکھ کر اس شخصیت یا اس کی سیاسی پارٹی کو احساس ہوا کہ اپنی طرف سے سچی یا جھوٹی بات کا عوامی یا میڈیا کا ردعمل بڑا منفی ہے تو اس پر بھی ایک پریس ریلیز جاری کردی جاتی ہے کہ ’’صاحب ‘‘کا مقصد یہ نہیں تھا جو عوام یا میڈیا نے اخذ کرلیا ان کا مقصد تو کچھ اور تھا لیکن ان کی تقریر یا ان کا بیان یا ان کے انٹرویو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پڑھا ، دیکھا یا شائع کیا گیاہے، تو پھر اس پر بھی ایک پریس ریلیز جاری ہوتی ہے، اس طرح کچھ اداروں کے اجلاس جس میں میڈیا کا کوئی نمائندہ نہیں ہوتا اور عوام کو اس ادارے کے ہونے والے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کا انتظار ہوتا ہے تو وہ ادارے بھی اپنے اجلاس کے بعد ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہیں، جیسے پاک آرمی کے کور کمانڈرز کا اجلاس اور حکومت پاکستان کی کابینہ کا اجلاس وغیرہ شامل ہیں، بعض اوقات یہ ادارے محض پریس ریلیز پر اکتفا کرنے کی بجائے بریفنگ بھی دے دیتے ہیں تاکہ پریس ریلیز سے اگر کوئی ابہام رہ جائے تو اس کو مکمل بریفنگ سے دور کردیا جائے اور ہونے والے فیصلوں سے اگر کچھ سوال اٹھ رہے ہوں تو میڈیا کے نمائندوں کے سوالات کے جواب دے کر ساری پوزیشن کلیئر کردی جائے ، میں نے بات شروع کی تھی دیگر شعبوں کی طرح صحافت کے متعلق بھی کچھ بنائے گئے لطیفوں کی، تو اس حوالے سے ایک شعبہ صحافت میں نوارد اخبار مالک کے حوالے سے یہ لطیفہ مشہور ہے کہ اخبار شروع ہونے کے کئی روز بعد جب انہوںنے دیکھا کہ ان کے اخبار میں (پ ر) کی کریڈٹ لائن سے بہت ساری خبریں شائع ہورہی ہیں تو ایک روز ان سے نہ رہا گیا تو انہوںنے کہاکہ بھئی ہمارے اخبار میں یہ ’’پ ر‘‘ کون سا رپورٹر ہے اس کی خبریں سب سے زیادہ ہوتی ہیں مجھے بتایا جائے تاکہ میں اسے انعام دے سکوں۔ ان کے سٹاف نے کچھ دیر زیر لب مسکرانے اور زبان کو دانتوں کے نیچے دبائے رکھنے کے بعد ان پر یہ راز افشا کردیا کہ ’’پ ر‘‘رپورٹر نہیں بلکہ پریس ریلیز ہے اسی طرح اخبار کے مارکیٹ میں تاخیر سے جانے کے حوالے سے جب ایک مالک نے اپنے سٹاف سے پوچھا کہ اخبار لیٹ کیوں شائع ہوا تو انہیں بتایا گیا کہ رات کو SERVERکام نہیں کررہا تھا، انہوںنے ایک مرتبہ اسے نظر انداز کیا اورکچھ روز بعد پھر یہی بات دھرائی گئی کہ SERVERکام نہیں کررہا تھا، تو انہوںنے کمپیوٹر کے سرور کی بجائے یہ سمجھ لیا کہ شاید کوئی سرور نامی ملازم ہے جو کام چور ہے تو انہوں نے انتہائی غصے سے کہاکہ ایک تو سرور کی تنخواہ روک لی جائے اور دوسرا سرور کی جگہ کوئی دوسرا ملازم بھرتی کیا جائے، یہ لطیفہ تحریر کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ مجھے بھی یہ بیماری لاحق ہے کہ میں نے جب بھی سنا ، پڑھا یا کسی چینل پر خبر دیکھی تو معلوم ہوا کہ فلاں علاقے، مارکیٹ ، شاپنگ پلازہ، سرکاری دفتر یا فیکٹری میں ’’شارٹ سرکٹ‘‘ کی وجہ سے آگ لگ گئی ہے، مجھے نہیں معلوم یہ ’’شارٹ سرکٹ‘‘ کون ہے اور جہاں بھی آگ لگتی ہے یہ وہاں کیوں موجود ہوتا ہے ، اس کو کوئی پکڑتا کیوں نہیں اس پر پہلے سے نظر کیوں نہیں رکھی جاتی اور اس کا تعلق پولیس یا سکیورٹی اداروں کے علاوہ کسی دوسرے ادارے یعنی واپڈا وغیرہ سے ہے تو وہ ’’شارٹ سرکٹ‘‘ کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے یا وہ فیکٹریوں ، شاپنگ پلازوں، سرکاری عمارتوں یا مارکیٹوں والے اس ’’شارٹ سرکٹ‘‘ پر نظر رکھتے ہوئے خود اس بلا کا خاتمہ کیوں نہیں کرتے کیونکہ جہاں تک مجھے یادت پڑتا ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں بھی ایک مرتبہ یہی ’’شارٹ سرکٹ‘‘ آگ کے شعلے بلند کرکے سب کچھ خاکستر کرچکا ہے اور پچھلے کچھ ماہ سے کراچی اور لاہور کے پلازوں، مارکیٹوں اور گوداموں میں جو آگ لگنے کے واقعات پیش آرہے ہیں،کہیں ہماری معیشت کو تباہ کرنے کی سازش تو نہیں یا اس میں بھی صرف شاید ’’شارٹ سرکٹ‘‘ ہی ملوث ہے ، ذمہ داران معلوم کریں اور ’’شارٹ سرکٹ‘‘ کو قرار واقعی سزا دیں۔


.
تازہ ترین