• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اختلاف رائے کوئی بری چیز نہیں ہے یہ شعور اور اعتماد کی علامت ہے انسان اور غیر انسان میں فرق شعور کا ہے جب شعور بڑھے گا علم و آگہی آئے گی تو رائے کے اختلاف کو بھی ساتھ لائے گی۔ اسی لئے اختلاف رائے کو جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے جبکہ آمریتوں میں جبر کی طاقت سے مخالفانہ نقطۂ نظر کو دبا دیا جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والے کسی مسئلہ پر ایکا نہیں کر سکتے۔ جذبات یا فروعات پر اختلاف رائے تو قابلِ فہم ہے لیکن کچھ بنیادی و اصولی ایشوز ایسے ہوتے ہیں جہاں اختلاف باعث رحمت نہیں رہتا بلکہ باعث زحمت و افتراق بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر انسانی تکریم، حرمت یا عظمت کا ایشو آجائے تو دنیا کا کوئی انسان اس سے اختلاف نہیں کر سکتا یہی وجہ ہے کہ ہیومن رائٹس کا مسئلہ درپیش ہو تو دنیا کی کوئی مہذب سوسائٹی اس سلسلے میں اختلافی نقطۂ نظر نہیں اپنا سکتی۔ کائنات میں کسی بھی انسان کی زندگی سے قیمتی کوئی چیز نہیں ہے اس بنیادی نکتے سے کسی کو اختلاف نہیں اور نہ ہی ایسے بے اصولی پر مبنی اختلاف برائے اختلاف، سوسائٹی کی کوئی اعلیٰ قدر ہے۔ سوسائٹی میں جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیوں پر سب کا ایکا ہونا چاہئے آئین اور قانون کی حکمرانی کا اصول سب پر لاگو ہوتا ہے۔ کوئی فرد یا ادارہ چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو مہذب سوسائٹی میں یہ گوارا نہیں ہے کہ وہ آئین، جمہوریت انسانی حقوق اور آزادیوں سے کھلواڑ کرے۔
وطنِ عزیزکی تاریخ اس حوالے سے بڑی دردناک ہے کہ یہاں چار مرتبہ آئین کو توڑا گیا اگرچہ دفعہ 6کے مطابق اس سنگین جرم کی سزا بہت سخت ہے لیکن دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس حوالے سے ماضی میں ہمارے مصنفوں کا رول افسوسناک ہی رہا ہے۔ آئین میں ترمیم کا اختیار جو اول و آخر منتخب پارلیمنٹ کو حاصل ہوتا ہے، بلادریغ آمروں کو تفویض کیا جاتا رہا۔
وطنِ عزیز میں کرپشن کا بہت رونا رویا جاتا ہے اور یہ رونا بلاجواز بھی نہیں ہے قانون اگرچہ اندھا ہوتا ہے لیکن پنجابی محاورے میں جس طرح کہا جاتا ہے ’’کانی ونڈ‘‘ یعنی انصاف کانا ہرگز نہیں ہوتا صدیوں سے انصاف کا اصول یہ رہا ہے کہ اس کی ونڈ یا کارکردگی کانی یا جانبدارانہ ہرگز نہیں ہونی چاہئے آج مہذب سوسائٹی یہ پوچھ رہی ہے کہ مملکتِ خداداد میں کرپٹ کیا صرف سیاستدان ہوتے ہیں کیا دیگر سب لوگ کوثر و تسنیم سے دھلے ہوتے ہیں اس درویش نے طاقتور لوگوں کی جائیدادوں اور پلاٹوں کے حوالے سے آرٹیکل لکھا تو کہا گیا چھوڑیں جی ایسی خطرناک باتیں مت کریں کہا کہ چھوڑ دیتے ہیں لیکن ضمیر کی خلش ہے کہ ایک طبقے کے خلاف بے پرکی ہر رطب و یابس لکھنے کی کھلی چھوٹ ہے جبکہ دوسری طرف ثبوتوں سمیت سچائی کی بات بھی کرنے کو ترستی ہے زباں میری۔ زیادہ سیانوں نے سمجھایا کہ بھائی اگر یہاں معزز بن کر رہنا ہے تو پھر یہ دستورِ زباں بندی قبول کرنا پڑے گا سمجھ دار اور ذہین لوگ صحیح کہتے ہیں حکمت اور دانائی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بچ بچا کے رہو پیار محبت کے ساتھ نرم نرم اسلوب میں جتنی کہی جاسکتی ہے وہ اس طریقے سے کہو کہ سوائے تم جیسے چند سر پھروں کے کسی اور کو اس کی سمجھ ہی نہ آئے لیکن ہم تو تہذیب اور شائستگی پر یقین رکھنے والے تصوف کے ایسے پر چارک ہیں جو مسجد مندر تو دور کی بات، ان میں گونجنے والی آوازوں کی بھی خوشامد کرتے رہتے ہیں ہم بھلا کسی کی تضحیک کا کیسے سوچ سکتے ہیں رہ گئے طاقتور لوگ تو ان کے خلاف بھلا کوئی غیر ذمہ دارانہ بول کیسے بول سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں یہ حق تو حاصل ہونا چاہئے کہ ہم آئین اور قانون کی دی ہوئی آزادی تحریر و تقریر کو استعمال کر سکیں۔ کیونکہ کلمۂ حق یا آزادیٔ اظہار تو ہمارے ایمانیات کی بنیاد ہے۔ ہم اپنے ایمان سے کیسے دستبردار ہو جائیں۔ آواز آئی کہ فی الحال تقیہ سے کام چلائیں وہ تو ٹھیک ہے لیکن ابھی حال ہی میں میڈیا کی آزادی کا دن منایا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ تہذیب اور دلیل کے ساتھ ہر بات کہی جا سکتی ہے۔
سرل المیڈا کی اسٹوری میں کون سی بات دلیل اور تہذیب سے ہٹ کر تھی اور کون سی ایسی بات تھی جسے لیک کیا گیا ہے، پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، اس کا پہلا شکار اس شخصیت کو بنایا گیا جس کی اعلیٰ ظرفی، خلوص اور انسانیت ضرب المثل ہے۔ جناب پرویز رشید ہماری سیاست کا وہ تابندہ آفتاب ہیں جس نے آمریت کے سیاہ جبر میں بھی روشنی پھیلائی ہے۔ اتنے بامروت، ذمہ دار اور خلیق انسان کو ناکردہ گناہ کی سزا دے دی گئی اسی طرح طارق فاطمی صاحب جن کا فارن آفس میں نصف صدی پر محیط کیرئیر رہا ہے، ان کا الواداعی خط کتنی سچائی پر مبنی ہے کتنی درد مندی ہے اور یہی حال رائو تحسین صاحب کا ہے۔ اتنے صاف ستھرے کردار کی شخصیات پر وہ الزامات جن کے اصابت ہونے کو کوئی منصف مزاج شہری تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ رائو صاحب نے درست کہا ہے کہ میں اس ناکردہ جرم کی سزا کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ اس تمام تر پسِ منظر میں کروڑوں عوام کے منتخب نمائندے کی بے بسی کا ادراک کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح بلا تاخیر ڈان لیکس انکوائری رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے اپنے قریبی ساتھیوں کی قربانی پر تیار ہو جاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن تو رہی ایک طرف پورے سوشل میڈیا پر اور نمایاں سیاسی قیادت کی طرف سے بھی یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا کسی جمہوریت میں منتخب قیادت کے ساتھ اس نوع کا رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے؟ ڈان لیکس ایشو کو جس غیر ذمہ دارانہ طریقے سے ہینڈل کیا گیا ہے اس سے ایک نہیں کئی ایک سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کیا کسی ذمہ دار اخبار یا اخبار نویس کو ایسے جبری ہتھکنڈوں سے اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے روکا جا سکتا ہے؟ ان انتہائی معزز شخصیات کو ناکردہ گناہ کی سزا کیوں دی جا رہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا منتخب وزیراعظم کے متعلق ایک ماتحت ملازم عوامی سطح پر اس نوع کی زبان استعمال کر سکتا ہے؟ اب امید کی جارہی ہے کہ عسکری و سیاسی قیادت مل بیٹھ کر اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کر لیں گے کیونکہ دونوں اس وقت ایک پیج پر ہونے کے دعویدار ہیں۔

.
تازہ ترین