• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الحمد للہ کہ ڈان لیکس کے معاملے پر سمجھوتہ ہوگیا اور قوم کو ایک ذہنی کرب سے نجات ملی۔ تماش بین کم ہوتے ہیں اور قوم کا درد محسوس کرنے اور درد رکھنے والے بہت زیادہ .... یہی لوگ تھے جو ڈان لیکس کی پریشانی میں مبتلا تھے کیونکہ اس پریشانی کو ایک ٹویٹ نے دوآتشہ کر دیا تھا۔ اب ان تاویلوں اور وضاحتوں کی وادی میں اترنے کی بجائے آگے بڑھنے کا وقت ہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ جس تیزانداز سےپرائم منسٹر ہائوس کے ایگزیکٹو آرڈر کو مستردکیا گیا وہ معمول کا ٹویٹ نہیں تھا۔ خبروں کا بھوکا میڈیا اس ٹویٹ کواڑا کر ہمالہ کی بلندیوں پر لے گیا اور کچھ خواہشمند بھاری بوٹوں کی دھمک محسوس کرنے لگے۔ مطلب یہ کہ آج کی میڈیا کی دنیا میں احتیاط..... بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ذرا سی جلدبازی سے سنگھاسن ڈولنے لگتا ہے۔ میں تو روز ِ اول سے کہہ رہا تھا کہ کمپرومائز ہو جائے گا۔ سیاسی اور عسکری قائدین معاملے کو ختم کرنے پہ راضی ہوجائیں گے۔ افغانستان سے مختصر سی جنگ اور ایرانی جرنیل کی دھمکی نے سمجھوتے کے عمل کوتیزکردیا ورنہ تو کورکمانڈر کانفرنس ڈان لیکس کو سیکورٹی بریچ یعنی سیکورٹی میں شگاف قرار دے چکی تھی اور آرمی چیف نےاپنے Constituency حلقہ نیابت کے دبائو کا عندیہ بھی دے دیا تھا۔ دہائیوں کے تنائو کے بعد عسکری قیادت نے پہلی بار برملا اعلان کیا ہے کہ فائنل اتھارٹی وزیراعظم ہیں اورسول قیادت کو بالادستی حاصل ہےورنہ عملی طور پر تو یہ الفاظ محض آئین کی کتاب کی زینت تھے۔ بہرحال مبارکباد فوج کو اور سیاسی اور عسکری قیادت کو کہ یہ طوفان وقتی طور پر دب گیا ہے اور اس پر سیاست کرنے والے دیکھتے رہ گئے ہیں۔ ملکی و قومی مفاداسی میں تھا اور اسی حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئی ایس پی آر نے ٹویٹ واپس لی ہے اور اس فیصلے کو تسلیم کرلیا ہے جو بظاہر انہیں قبول نہیں تھا۔ خدارا کسی کی سبکی کی بات نہ کرو اور نہ ہی اس خیال کوپروان چڑھائو۔ عسکری ادارے ہوں یا سیاسی ادارے، سبھی قوم کے ادارے ہیں اور ان میں اختلافات یا سمجھوتے کسی کی فتح یا شکست نہیں ہوتے۔ فتح و شکست یا سبکی وہاں ہوتی ہے جہاں قومی مفادات کا غیرقومی مفادات سے ٹکرائو ہو یا جہاں مقابلہ کسی مخالف قوت سے ہو، ایک ہی گھر میں رہنے والے دو فیملی ممبران کا اختلاف یا سمجھوتہ کسی کی فتح یا کسی کی شکست نہیں ہوتا اور نہ ہی اسےانا کا مسئلہ بناناچاہئے۔ اس درد دل کا اظہارکرنےکی مجھے ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ کل ایک دو ٹیلی ویژن چینلوں پرریٹائرڈ جرنیل اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ناراضی کاروپ دھارے سختی سے ’’فرما‘‘ رہے تھے کہ فوج کبھی ٹویٹ کو واپس نہیں لےگی اور نہ ہی وزیراعظم سیکرٹریٹ سے جاری کردہ نامکمل آرڈر کو تسلیم کرے گی۔ حدسے بڑھا اعتماد اورغرور کو چھوتا ان کا انداز ان کے مائنڈ سیٹ کی چغلی کھاتا تھا۔
البتہ ہمارے بعض سیاستدانوں کا دعویٰ کہ دراصل کوئی بات تھی ہی نہیں۔ میڈیا نے ذرا سی بات کو افسانہ بنا دیا..... درحقیقت یہ دعویٰ بھی اس انفارمیشن دور میں لوگوں کو بیوقوف بنانے والی بات ہے کیونکہ اگرکوئی بات ہی نہیں تھی تو راز کے فاش ہوتے ہی پرویزرشید جیسے جانثار کو اتنی اہم وزارت سے کیوں نکال دیاگیا؟..... الحمدللہ کہ تنائو ختم ہو گیالیکن یہ اپنی جگہ پر نہایت تکلیف دہ اور اذیت ناک حقیقت ہے کہ ڈان میں ایک ایسی خبر چھپوائی گئی جسے فوجی قیادت اور کورکمانڈر کانفرنس نے سیکورٹی شگاف قرار دیا۔تشویشناک ہے اس طرح کی سوچ، منفی ہتھکنڈےاور فوج کا امیج خراب کرنے کی سازشیں..... اور یہ سازش بھی اس وقت جب فوج ردالفساد میں مصروف ملک و قوم کے لئے خون بہا رہی ہے اور پاکستان کے دیرینہ دشمن ہماری فوج کو بدنام کرنے کے درپے ہیں..... گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے..... آخر خبر کہیں سےآئی تھی تو اخبار میں چھپی۔اگر یہ معاملہ وزیراعظم کی اعلیٰ ترین کمیٹی میں زیربحث آیا تھا تو یہ قومی راز تھا جس کا افشا غداری کے زمرے میں آتا ہے اور اگر یہ معاملہ میٹنگ میں زیربحث نہیں آیا تو خبر من گھڑت تھی، جس کے مضمرات نہایت خطرناک ہیں کہ یہ خبر کیوں اور کس محرک کے تحت گھڑی گئی۔ یہ گھنائونی سازش کس نے کی اور کس نےاپنی ہی فوج کے امیج کو داغدار کرنا چاہا۔ اس طرح یہ معاملہ اور بھی سنجیدہ اور گمبھیرہو جاتا ہے اور صرف غداری نہیں بلکہ سنگین غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ ڈان نے خبر ایک دن روکے رکھی اور دوبارہ کارروائی مکمل کرکے دوسرے دن چھاپی۔ اس لئے حکومتی سیاستدانوں کا یہ واویلا کہ کوئی بات تھی ہی نہیں، قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش ہے۔ حزبِ مخالف اور خاص طور پر چوہدری اعتزاز احسن ایک مخصوص جانب ایک مخصوص شخصیت کی طرف انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ اُن کے اِن اشاروں کو بھی تقویت اسی اقدام سے ملتی ہے کہ پہلے ہی روز ایسے وفادار شخص کی قربانی دے دی گئی جو کئی دہائیوں سے ہمہ وقت میاں صاحب کے نام کی مالا جپتا ہے۔ اگر وہ اسی خشوع و خضوع سے اللہ کو یاد کرتا تو آج بلند روحانی مقام پر فائز ہوتا اور قدرت کے انعامات سے مالامال ہوچکا ہوتا۔ لیکن یہ معاملہ ہے اپنی اپنی ترجیحات اوراپنی اپنی منزل مقصود کا۔ دنیاوی ٹوہر، شان و شوکت اور خوشامدی عہدوں کے طلب گار خدائی عہدوں اور روحانی مقامات کے متلاشی اور راہی نہیں ہوتے۔ مادی اور روحانی منازل کے درمیان ناقابل عبور فاصلہ حائل ہے۔ مادی دنیا نظر کا دھوکہ اور روحانی دنیا باطنی نگاہ کا نور ہوتی ہے جس کے ذریعے صاحب ِ نگاہ زمین کی تہوں سے لے کر آسمان کی بلندیوں تک قدرت کے بھید دیکھتا اور نظاروں سے روح کو سرشار کرتاہے۔ مادی دنیا میں برسوں کی خوشامد، خدمت اور جان نثاری سے حاصل کردہ وزارت یا عہدہ چند لمحوں میں پانی کی مانند ہاتھ سے نکل جاتا ہے لیکن اللہ پاک اپنے بندوں کو انعامات سے محروم نہیں کرتے۔ اس میں درباری، خوشامدی اور جانثار خدمت گاروں کے لئے پیغام موجود ہے جو وہ کبھی نہیں سمجھیں گے کیونکہ عہدہ آنکھوں اور ذہن پر فریب کا گہرا پردہ ڈال دیتا ہے بلکہ عام طور پر خدا کو بھی بھلا دیتا ہے اور عہدیدار کو دنیاوی خدا یعنی فرعون اور متکبر بنا دیتا ہے۔ بات دور نکل گئی۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اگرچہ ڈان لیکس کا مسئلہ وقتی طور پر ٹھپ ہو گیا ہے اور یقیناً اندر خانے حکمرانوں نے فوجی قیادت کو کچھ یقین دہانیاں کروائی ہوں گی لیکن سچ یہ ہے کہ مستقبل میں ایسی سازشوں کاقلع قمع کرنے کے لئے ڈان لیکس سازش کی تہہ تک پہنچنا اور ذمہ داروں کو عبرتناک سزا دینا ضروری ہے۔ اگر پاکستان واقعی ہی جمہوری ملک ہے تو پھر ووٹ دے کر حکمران بنانے والے ووٹروں کا بھی یہ حق ہے کہ وہ ڈان لیکس کمیشن کی رپورٹ..... اصلی اور مکمل رپورٹ ..... کوخود پڑھیں اور اس پر تبصرے کریں۔ کیونکہ اس رپورٹ میں کوئی قومی راز پوشیدہ نہیں۔ اس میں صرف قومی ملزموں اور مجرموں کے نام ہوں گے۔ اگر حکومت کا یہ دعویٰ درست ہے کہ ذمہ داران کو سزا دی جاچکی ہے تو رپورٹ پڑھنے سے اس دعوے کی تصدیق ہو جائے گی اور حزب ِ مخالف کے اس پروپیگنڈے سے ہوا نکل جائے گی کہ حکومت کس کو پردہ راز میں رکھ کر پناہ دے رہی ہے اور کس کی خاطرکسی اور کو قربانی کا بکرا بنایاگیا ہے۔تاریخ ایسے دنیاوی وفاداروں اور اقتدار کے جانثاروں کے انجام سے بھری پڑی ہے۔ سچ یہ ہے کہ روز ِ اول سے ہی قربانی کے بکرے ہوتے ہیں اور انہیں وقت آنے پر قربانی کے لئے ہی پالا جاتا ہے۔

.
تازہ ترین