• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی ہر دم فکر کرنے اور خیر منانے والے اوورسیز پاکستانیوں کو اس وقت سخت صدمے سے دوچار ہونا پڑتا ہے جب وطن عزیز سے کوئی ایسی خبر آئے جو ساری دنیا میں اس کی بدنامی کا سبب بنے۔ بدقمستی سے پاکستان سے اکثر اوقات ایسی بُری خبریں آہی جاتی ہیں۔ کبھی کوئی پاکستانی دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہوجاتا ہے، کبھی کسی اقلیتی برادری کے رکن کو توہین رسالت کے الزام میں قتل یا پھر کسی مسلمان طالب علم کو ذاتی مخاصمت کی وجہ سے مذہب کا نام لے کر ایک ہجوم سے قتل کرا دیا جاتا ہے۔ کبھی پاکستانی کرکٹر اپنی لالچ اور حرص کی وجہ سے پاکستان کو بدنام کرتے ہیں اور کبھی پاکستان کی ’’لاجواب ائرلائن‘‘ بیرونی ممالک کے اخبارات اور میڈیا میں خبروں کی ’’زینت‘‘ بن کر اوورسیز پاکستانیوں کو دکھ پہنچاتی ہے۔ ابھی چند روز قبل پی آئی اے کے حوالے سے برطانوی اخبارات میں بھی یہ خبر تصاویر کے ساتھ شائع ہوئی کہ لندن آنے والی پرواز کا پائلٹ فرسٹ کلاس میں سویا ہوا ہے اور اس نے تین سو مسافروں پر مشتمل جہاز زیر تربیت پائلٹ کے سپرد کیا ہوا تھا۔ کچھ عرصہ قبل اسی ائرلائن کی ایک پرواز کو برطانیہ کے دو جنگی طیاروں نے ہیتھرو کی بجائے سٹنسیڈ ائرپورٹ پر اتار لیا تھا۔ یہ خبریں سارا دن میڈیا پر چلتی رہیں اور اخبارات نے اس کو نمایاں انداز میں شائع کیا۔ اب قومی ائرلائن نے ایک اور ’’کارنامہ‘‘ کردیا ہے کہ ہیتھرو آنے والے اس کے طیارے کے خفیہ خانوں سے ہیروئن برآمد ہوئی ہے۔ اگرچہ اس خبر کی برطانوی حکومت اور ایجنسیوں نے سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی تاہم تحقیقاتی ایجنسیوں کے ارکان نے اس حوالے سے میڈیا کو بہت سی باتیں بتا دی ہیں اور تصدیق کی ہے کہ ہیروئن برآمد کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ عملے کے ارکان کو نہ صرف زیر حراست رکھا گیا بلکہ ان کے پاسپورٹ بھی کئی گھنٹے تک ضبط کئے رکھے گئے۔ اب سرکاری طور پر اس کی تصدیق ہو یا نہ ہو مگر پی آئی اے پاکستانی قوم اور ملک کی ساکھ کو جو نقصان پہنچنا تھا وہ تو پہنچ چکا ہے البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان سے آنے والی پرواز سے ہیروئن کا برآمد ہونا کوئی اتنے اچھنبے والی بات بھی نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں ایسی کالی بھیڑوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے ذاتی فائدے کے لئے پوری قوم کی ساکھ کو داؤ پر لگا سکتی ہیں۔ تحقیقاتی اداروں نے ظاہر ہے کہ ہیروئن برآمد کرنے اور تمام شواہد اکھٹے کرنے کے بعد ہی اس خبر کو لیک کیا ہوگا۔ ان اداروں کے مخبر پوری دنیا میں موجود ہیں اور ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں نے ہیروئن کو طیارے میں رکھا ہو ان میں ان ایجنسیوں کا کوئی ایجنٹ بھی موجود ہو جس نے انہیں بروقت اطلاع کردی۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ طیارے میں ہیروئن کس نے رکھی؟ ہوسکتا ہے کہ پائلٹ اور دوسرا عملہ اس میں سرے سے ملوث ہی نہ ہو بلکہ اس میں وہ لوگ ملوث ہوسکتے ہیں جو طیارے کی دیکھ بھال کرتے ہیں، مگر پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ چھوٹا عملہ یا مکینک وغیرہ اتنا بڑا کام کیسے کرسکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ کام بڑے پیمانے پر کیا گیا ہے اور اس میں اعلیٰٓ سطح کے لوگ بھی ملوث ہوں گے جن کا مقصد پی آئی اے اور پاکستان کی قوم کی ناموس کی قیمت پر کروڑوں پونڈ بنانا ہوگا۔ یہ لوگ یقیناً پاکستان کے اندر اور برطانیہ میں بھی ہوں گے مگر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب اس طرح کے لوگوں کی تصدیق کے لئے تحقیقات پاکستان کے اندر ہوگئی تو چور کیسے پکڑے جائیں گے؟ یقیناً ان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ وہ تحقیقات کرنے والوں کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ اس طرح یہ معاملہ بھی دفتری کارروائیوں کی نذر ہو کر آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا لیکن اس سے بیرونی ممالک میں پاکستان ائرلائن پر لگنے والا دھبہ ہمیشہ موجود رہے گا۔ اس ائرلائن کی ساری پروازوں کو بیرون ملک شکوک و شبہات سے دیکھا جائے گا اور اس کی خاص طور پر نگرانی بھی کی جا سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس سے بیرونی ممالک خصوصاً برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ان پاکستانیوں نے برطانیہ میں اپنا ایک نام بنایا ہے، ان کے ارکان پارلیمنٹ ہیں، میئرز ہیں، کونسل لیڈر ہیں اور سینکڑوں کونسلرز ہیں۔ سیاست معیشت اور دوسرے شعبوں میں انہوںؒ نے اپنا ایک نام پیدا کیا ہے۔ ایسے میں چند عاقبت نااندیش عناصر کی وجہ سے ان پر جو دھبہ لگا رہا ہے اسے شاید مٹانا اتنا آسان نہ ہوگا۔ ملک کو ان عناصر سے پاک کرنے کے لئے اندر سے صفائی کرنا ہوگی۔

.
تازہ ترین