• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئے بجٹ کے لئے تجاویز کی تیاری کا کام زور وشور سے جاری ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بر سر اقتدار آنے والی مسلم لیگ (ن( حکومت کا یہ پانچواں بجٹ ہو گا۔ آئینی تقاضوں کے مطابق 2018ء نئے انتخابات کا سال ہے مگر کئی ہنگامہ خیز ایشوز کے سامنے آنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں جلوسوں اور ان کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بھی عوامی حمایت کے مظاہروں نے ایسی فضا بنا دی ہے جس کی موجودگی میں یہ توقعات بے محل نہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف نے رواں مالی سال کے دوران فراخدلانہ کسان پیکیج کے علاوہ مختلف شہروں میں خطیر مالیت کے ترقیاتی منصوبوں کے جو اعلانات کئے، ان کی جھلک نئے آنے والے قومی میزانیے میں بھی نظر آئے گی۔ عشروں سے بر سر اقتدار آنے والی حکومتوں کے اعداد و شمار سے مزین بلند بانگ دعووں، دل خوش کن اعلامیوں اور کامیابیوں پر مبنی اشتہاری تحریروں کو یکسر مسترد کرنا ممکن نہیں۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ کام ہوئے ہیں مگر بعض اداروں میں بدنظمی اور کرپشن جیسی شکایتوں کا انبار اس طرح بڑھا کہ عام آدمی کو اپنی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی محسوس نہیں ہوئی بلکہ متوسط طبقے کے لوگ تیزی سے اس حد سے نیچے جاتے رہے جس کے تحت عالمی معیار کے مطابق ایک فرد کے ایک دن کے کھانے پینے پر کم از کم دو ڈالر کی رقم درکار ہوتی ہے۔ملک بھرمیں جاری ٹھیکیداری سسٹم کے تحت ڈیڑھ سو روپے یومیہ سے تین سو روپے یومیہ کی اجرت نے کئ کئی افراد پر مشتمل خاندانوں کیلئے ایک وقت کی سوکھی روٹی کی فراہمی بھی مشکل بنا دی ہے۔ جبکہ وسائل پر قابض اشرافیہ کو ہر طرح کی مراعات حاصل ہونے کے باوجود ٹیکس گریزی میں وہ شہرت ملی کہ ایک مشکل وقت میں وطن عزیز کی اعانت کے حوالے سے ایک دوست ملک کی پارلیمنٹ میں بحث کے دوران یہ تبصرہ بھی سامنے آیا کہ جس ملک کو اس کے اپنے بااثر افراد ٹیکس نہیں دیتے، اس کی معاونت کے لئے ہم اپنے ٹیکس گزاروں پر کیوں بوجھ ڈالیں۔ افسوسناک صورتحال یہ رہی کہ حکومتیں اپنی بجٹ ضروریات کے لئے باقاعدہ پالیسی کے تحت غریبوں پر پیٹرول، گیس، بجلی ،پانی جیسی چیزوں کی مہنگائی کی صورت میں بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھاتی رہیں۔ یہ ایسے ٹیکس ہیں جنہیں معاشی ماہرین استحصال کی بدترین صورت قرار دیتے ہیں جبکہ وسائل پر قابض اشرافیہ کی بڑی بڑی جائیدادوں، زمینوں، زرعی آمدنی، بڑی بڑی گاڑیوں اور سامان تعیش پر براہ راست ٹیکس عائد کرنے سے اجتناب برتا جاتا رہا۔ اب نئے بجٹ کے حوالے سے ملنے والی یہ اطلاع حکومتی پالیسی میں تبدیلی کی خوش آئند علامت کہی جاسکتی ہے کہ اس میں کوئی نیا بالواسطہ ٹیکس (indirect Tax) عائد نہیں کیا جائے گا۔ فلاحی مملکت کا تصور بھی یہی ہے کہ امیروں سے زیادہ ٹیکس لئے جائیں اور غریبوں کی حالت بہتر بنانے کے منصوبوں مثلاً مفت تعلیم و علاج، سستی ٹرانسپورٹ، سستی فوڈ باسکٹ، روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور وسائل سے محروم لوگوں کو سہارا دینے پر خرچ کئے جائیں۔یہ بات خوش آئند ہے کہ نئے مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کیلئے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی رقم (ایک ہزار ایک ارب روپے کے لگ بھگ ) مختص کی جا رہی ہے۔ جس بجٹ میں ترقیاتی کاموں، مثلاً سڑکوں ،پلوں، ذرائع مواصلات اور بنیادی سہولتوں پر توجہ دی جاتی ہے وہ اس کا منافع زرعی و صنعتی پیداواریت، کاروباری سرگرمیوں اور روزگار کے زیادہ مواقع کی صورت میں ادا کر دیتا ہے۔ سی پیک منصوبے کے روبہ عمل آنے کے ساتھ ساتھ اقتصادی سرگرمیاں بڑھیں گی جن کیلئے نوجوانوں کو مختلف ہنر سکھانے پر توجہ دی جانی چاہئے۔ اپنی زمین کی زرخیزی سے خود فائدہ اٹھانے، آبپاشی نظام کو بہتر بنانے اور فی ایکڑ زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے جدید طریقوں پر توجہ دی جائے تو ہم اپنے محل وقوع کے بھرپور فوائد حاصل کر سکیں گے۔ جبکہ تدبر اور منصوبہ بندی سے کام نہ لینے کا نتیجہ ہم اسی محل و قوع کے باعث پیدا ہونے والے خطرناک حالات کی صورت میں خاصی حد تک بھگت چکے ہیں اور اب بھی اس محل وقوع کی حفاظت کیلئے ہمیں بہت کچھ کرنا پڑرہا ہے۔

.
تازہ ترین