• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئیں سب مل کر انسانیت کی خدمت کریں!...خصوصی تحریر…رائوکامران علی،اوہائیو ۔امریکہ

’’کیس ویسٹرن یونیورسٹی اسپتال‘‘ امریکہ کی ریاست اوہائیو کے شہر کلیولینڈ کا بہت بڑا اسپتال ہے۔ سن 2010 ءمیں جب میں وہاں پین فیلوشپ (دردوں کے سرجری کے ذریعے علاج کی ٹریننگ) کررہا تھا، ایک صبح ایک کمزور سا انگریز بوڑھا سستے سے کپڑے پہنےعقبی دروازے سے کلینک میں داخل ہوا اور میرے پروگرام ڈائریکٹر کے بارے میں پوچھا۔ میں نے اسے بتایا کہ باس دیر سے آئے گا، اور وہ میرے ساتھ بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا۔ اُس کا گاڑیوں کی خریدو فروخت کا کاروبار تھا۔ کافی دیر تبادلہ خیال کرنے کے بعد اس نے مجھ سے کہا، "ڈاکٹر علی، میں چلتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ تمُ ترقی کرو گے لیکن یاد رکھنا اپنی کمائی کا ایک حصہ غریبوں اور مریضوں پر ضرور خرچ کرنا"۔ مجھے خاصی حیرت ہوئی کیونکہ ایسی مُفت کی نصیحتیں ’’دیسی بزرگ‘‘ کرتے ہیں، انگریز نہیں۔ اتنی دیر میں اسپتال کا پروٹوکول آفیسر اور میرا پروگرام ڈائریکٹر تیز قدموں سے چلتے ہوئےآئے اور انتہائی مودبانہ انداز میں اس بوڑھے انگریز سے مخاطب ہوئے، "سر ہم آپ کا اوپر ایڈمن آفس میں انتظار کررہے تھے"۔ پتا چلا کہ وہ سستے کپڑے پہنے ہوا انگریز، لی سیڈمین (Lee Seidman) تھا جس نے 2010 میں "کیس ویسٹرن یونیورسٹی اسپتال" کو 43 ملین ڈالرز (پانچ ارب پاکستانی روپے) کا عطیہ دیا تھا جس کو سراہتے ہوئے "کیس ویسٹرن یونیورسٹی اسپتال" نے اپنے کینسر سینٹر کا نام "سیڈمین کینسر سینٹر"(Seidman Cancer Center) رکھ دیا۔ یہ سینٹر شوکت خانم میموریل اسپتال لاہور سے بھی زیادہ جدید ہے۔مجھے یہ واقعہ گزشتہ جمعتہ المبارک کو ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں شوکت خانم میموریل اسپتال کی فنڈ ریزنگ میں شرکت کرتے ہوئے یاد آیا۔ یہ فنڈ ریزر عزیز دوست ڈاکٹر جلیل خان، انکی بیگم عائشہ جلیل خان، ڈاکٹر محمد طارق اور انکی بیوی عائشہ طارق کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سے دوستوں کی انتھک محنت اور کاوشوں سے منعقد ہوا۔ زندہ دلانِ ڈیلس (ڈیلس میں پاکستانی لاہور کی طرح ہیں) نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور چند گھنٹوں میں لگ بھگ دو کروڑ پاکستانی روپے اکھٹے ہوگئے۔ ڈاکٹر جلیل خان اور ٹیم 2007 ء سے ڈیلس میں چندہ اکھٹا کر رہے ہیں۔ عمران خان کی ریکارڈ شُدہ تقریر بہت جذباتی اور دلوں کو چھُو لینے والی تھی۔ شوکت خانم میموریل اسپتال کراچی کا بجٹ دس ارب ہے جس میں سے پانچ ارب اسپتال خود اپنی لیبارٹری سے کما کر لگائے گا جبکہ باقی پانچ ارب پوری دنیا سے چندے کی صورت میں اکھٹے ہوں گے۔ "لی سیڈمین" اکیلے نے پانچ ارب روپے کا عطیہ دیا تھا تو آپ اُس اسپتال کے وسائل کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن ’’سیڈمین کینسر سینٹر‘‘ میں کسی بھی کینسر کے مریض کا مکمل علاج مُفت نہیں ہوتا جبکہ شوکت خانم میموریل اسپتال میں ستر فیصد سے لیکر نوے فیصد تک علاج مُفت ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ میں کسی بھی موذی مرض کے اتنے اعلیٰ اور مُفت علاج کی مثال نہیں ملتی۔’’جا تن لاگے وا تن جانے‘‘ کے اس اسپتال کی قدر وہ جانتا ہے جس کا یا جس کے کسی پیارے کا علاج وہاں ہوا ہے۔ تاہم لگ بھگ سارے ڈاکٹر حتیٰ کہ دوسری جماعتوں کے بڑے لیڈروں کے ڈاکٹر بچے بھی اس کی قدر کرتے ہیں کیونکہ انھیں پتا ہے کہ کینسر کتنی بڑی آفت ہے اور اُسکا علاج کیا معنی رکھتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اپنا امیج بہتر کرنے کیلئے شوکت خانم میموریل اسپتال کا سیاسی فائدہ لے رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا حل یا مُتبادل کیا ہے؟ کاش نواز شریف اور بینظیر بھٹو، رائےونڈ اور لاڑکانہ میں (اپنی جیب سے نہیں، سرکاری پیسے سے) اس سے بھی بڑے بڑے کینسر کے سو فیصد مُفت علاج کے اسپتال بنا کر نا انسانیت کی خدمت کے اس عمل میں شامل ہوتے۔ یاد رہے کہ کینسر اسپتال کی بات ہورہی ہے، نزلہ زکام کے علاج کے اسپتال کی نہیں۔رمضان کا مہینہ آنے والا ہے۔ اگر آپکا کوئی جاننے والا کینسر کا شکار رہا ہے تو آپکو خود پتا ہے کہ زکوٰۃ کا بہترین مصرف یہ ہےکہ آپ ایسے ادارے کی مدد کریں جو آپ کو اس موذی مرض ے نجات دلاتا ہے اور اگر الّلہ کے کرم سے آپکے پیارے اس جان لیوا اور تکلیف دہ مرض سے محفوظ ہیں تو ان کی صحت کا صدقہ ان اداروں کی مدد کرکے دیتے رہیں اور ساتھ ساتھ زکوٰۃ بھی، دُعا ہے کہ وہ ہمیشہ محفوظ رہیں۔ اگر پاکستان کے بیس کروڑ لوگ پچیس پچیس روپے فی کس بھی دیں تو پانچ ارب ہو جائینگے۔ ہمارے مُلک کے ’’لی سیڈمین‘‘ اپنی دولت کو مزید کئی گُنا کرنے میں مصروف ہیں اسلئے اس موذی بیماری سے نجات دلانے کے ادارے قائم کرنے کا یہ کام ہم جیسے عام لوگوں کو ہی کرنا ہے۔

.
تازہ ترین