• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان کے صوبے زابل اور دارالحکومت کابل میں اتوار کو طالبان کی جانب سے بیک وقت کئی مسلح کارروائیاں بھاری جانی نقصان کا سبب بنیں۔ زابل میں سیکورٹی فورسز کی متعدد چیک پوسٹوں پر حملوں میں بیس اہلکار ہلاک اور پندرہ زخمی ہوئے، دارالحکومت کابل میں مسلح افراد نے ایک بین الاقوامی گیسٹ ہاؤس پر حملہ کرکے ایک جرمن خاتون اور اس کے محافظ کو ہلاک کردیا جبکہ فن لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو اغواء کرلیا گیا ۔زابل کے گورنر نے واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ طالبان نے کئی چیک پوسٹوں پر قبضہ کرلیا ہے تاہم علاقے میں لڑائی جاری ہے۔فن لینڈ کی خاتون کے اغواء کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے اور اغواء کاروں کا پتہ چلانے کے لیے تحقیقات کی جارہی ہے۔واضح رہے کہ طالبان ایک ماہ پہلے اعلان کرچکے ہیں کہ موسم بہار میں حملوں کا سلسلہ تیز کردیا جائے گا جبکہ گزشتہ ماہ شمالی صوبے بلخ میں طالبان کے حملے میں ڈیڑھ سو کے قریب سیکوریٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے اوراسے جانی نقصان کے اعتبار سے کسی افغان فوجی اڈے پر ہونے والا بدترین حملہ قرار دیا گیا تھا۔ نائن الیون حملوں کے بعد افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوج کشی کے نتیجے میں جنم لینے والی یہ بدامنی اور خوں ریزی رواں صدی کے پہلے سال سے جاری ہے لیکن معاملے کا کوئی بھی فریق اپنی حتمی کامیابی کی شکل میں اسے انجام تک پہنچانے میں نہ اب تک کامیاب ہوسکا ہے نہ آئندہ ایسا ہوتا نظر آتا ہے۔ جبکہ اس صورت حال کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان کھنڈر بن کررہ گیا ہے بلکہ پورا خطہ شدید بدامنی میں مبتلا ہے۔ اس عمل کا جاری رہنا مقامی آبادی کے تمام فریقوں کے لیے یکساں طور پر تباہ کن ہے لہٰذا اسے روکنے کی تمام ممکنہ تدابیر کا اختیار کیا جانا عین ہوشمندی کا تقاضا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان امن مذاکرات کا جو عمل جاری تھا ، خوں ریزی سے نجات کے لیے اس کی بحالی ناگزیر دکھائی دیتی ہے لہٰذا اس سمت میں فوری طور پر تیز رفتار اور مؤثر اقدامات ضروری ہیں۔

.
تازہ ترین