• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقی کا دس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، معیشت ساڑھے 3 سو کھرب ہوگئی، جاری خسارہ بے قابو،قرضوں میں اضافہ، اقتصادی سروے

اسلام آباد (حنیف خالد، تنویر ہاشمی )مالی سال 2016-17ء کی اقتصادی سروے رپورٹ جاری کر دی گئی ، ملک میں ترقی کا 10؍ سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، مجموعی معاشی شرح نمو 10؍ سال میں پہلی مرتبہ 5.3؍ فیصد کی شرح پرہے جبک اگلے سال کیلئے 6؍ فیصد مقرر کی گئی ہے ، پاکستانی معیشت ساڑھے تین سوکھرب روپے تک پہنچ گئی ،مہنگائی کی شرح تسلی بخش اورفی کس آمدنی بڑھی ،صنعتی ، زرعی اور سروسز کے شعبے میں ترقی کی شرح تین برس میں خاطر خواہ بڑھ چکی ہے ،تاہم جاری خسارہ بے قابو ہوگیا جو سوا 7؍ ارب ڈالر ہوگیاجبکہ چارسال کے دوران قرضوں میں بھی 46؍ فیصد اضافہ ہوا،پاکستان پر اس وقت مجموعی قرضہ 20872ارب روپے ہے ، صنعتی ترقی کی شرح 5.02؍ فیصد ، زرعی ترقی 3.46؍ فیصد اور سروسز شعبے میں ترقی کی شرح 5.98فیصد رہی ، بجلی و گیس کی ترسیل میں 3.4؍ فیصد ریکارڈ اضافہ کیا گیا،کسان پیکیج کی وجہ سے زرعی  شعبے میں بھی ترقی ہوئی، کسانوں کیلئے کھاد، بجلی اور دیگر اشیاء پر سبسڈی دی، گندم کی پیداواردو کروڑ57لاکھ 50ہزار ٹن رہی، چاول میں 0.7فیصد، مکئی 16.3،گنے کی پیداوار میں 4.12 فیصد، کپاس میں  7.6فیصد اضافہ ہوا، کھاد کی پیداوار 13.1؍ فیصد بڑھ گئی۔بینکنگ کے شعبے میں 16.2؍ فیصد اضافہ ہوا، جاری کھاتوں کا خسارہ سوا 7؍ ارب ڈالر تک پہنچ گیا، زرمبادلہ ذخائر 21؍ ارب ڈالرہیں، رواں برس فی کس آمدنی میں 22؍ فیصد اضافہ ہوا، سروسز سیکٹر کی شرح نمو میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، شرح سود 5.75؍ فیصد تک برقرار رکھی گئی ، مہنگائی کی شرح 4.09فیصد رہی ، صنعتوں میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں ترقی کی شرح 5.06؍ فیصدرہی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 2016-17ء کی اقتصادی سروے رپورٹ پریس کانفرنس میں جاری کی ، پارلیمانی سیکرٹری خزنہ رانامحمد افضل ، سیکرٹری خزانہ طارق باجوہ ، سیکرٹری شماریات ڈاکٹر شجاعت علی ، اکنامک ایڈوائزر اعجاز واسطی اور چیف شماریات آصف باجوہ بھی موجود تھے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ برآمدات بڑھانے پر توجہ ، ان ڈائریکٹ ٹیکس میں اضافہ زیر غور نہیں، دہشتگردی کیخلاف جنگ میں 123؍ ارب ڈالر کا نقصان ،2019کے بعدآئی ایم ایف کی ضرورت نہیں ہوگی۔ زراعت کی ترقی کی اہم وجہ وزیر اعظم کا 341؍ ارب روپے کا کسان پیکیج ہے ، یوریا کھاد کی قیمت کم کی گئی مختلف مصنوعات پر سبسڈی دی گئی اور ٹیوب ویل کی بجلی کی قیمت کم کی گئی ، زراعت کی گزشتہ سال 0.26؍ فیصد کے مقابلے میں اس سال 3.46؍ فیصد ترقی ہوئی، اہم فصلوں میں گندم کی ترقی کی شرح 4.12؍ فیصد ، کپاس کی ایک کروڑ 67؍ لاکھ 10؍ ہزار بیلز پیداوار ہوئی ، کپاس کی درآمدات سے بچنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں ، گنے کی پیداوار 73.7؍ ملین ٹن اور کپاس جننگ کی پیداوار میں 5.59فیصد اضافہ ہوا، وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں برس 650ارب روپے کے زرعی قرضے دیئے گئے اور آئندہ برس 700ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیاہے جبکہ سال 2012-13میں 391ارب روپے کے زرعی قرضے دیئے گئے تھے جو اب دگنا ہو چکے ہیں ، سروسز کے شعبے میں ترقی کی شرح 5.98فیصد رہی جو 2013-14میں 4.46فیصد تھی ، ہول سیلز اور ریٹیل ٹریڈ میں 6.82فیصد اضافہ ہوا، فنانس اور انشورنس کی گروتھ میں 10.77فیصد اضافہ ہو ا، وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ برس مہنگائی کی شرح کو 6فیصد تک محدود رکھا جائے گا جبکہ مالی سال 2016-17میں مہنگائی کی شرح فوڈ آئٹم میں 3.86فیصد اور نان فوڈ آئٹم میں 4.25فیصد رہی ، وزیر خزا نہ نے کہا کہ رواں برس 10ماہ میں 17ارب91کروڑ ڈالر کی برآمد ات ہوئیں اور سال کے آخرتک تخمینہ21ارب76کروڑ ڈالر کا ہے ، گزشتہ برس 20 ارب54کروڑ ڈالر کی برآمدات ہوئی تھیں ، رواں برس برآمدی پیکیج بھی دیا گیااور اس پر عمل ہو رہا ہے ، آئندہ برس بھی برآمدی پیکیج کو جاری رکھا جائےگا، درآمدات 10ماہ میں 37ارب 84کروڑ ڈالر کی ہوئیں اور سال کے آخر تک 45ارب 48کروڑ ڈالر کا تخمینہ ہے ، گزشتہ برس 10ماہ میں 33؍ ارب 44؍ کروڑ ڈالر کی درآمدات ہوئی تھیں ، انہوں نے کہا کہ 40؍ فیصد درآمدات پلانٹس اور مشینری کی ہیں جو ایک اچھی بات ہے ، اس سے روزگار کے مواقع پید اہونگے اور فی کس آمدنی بڑھےگی ، درآمدات میں بجلی کی مشینری 70؍ فیصد ، ٹیکسٹائل 23؍ فیصد ، تعمیرات کی 69؍ فیصد ، زراعت کی مشینری 37؍ فیصد اور دیگر مشینری میں 50فیصد حصہ ہے ، وزیر خزانہ نے بتایا کہ مالی سال 2016-17ء کے پہلے دس ماہ میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ سات ارب 25کروڑ ڈالر رہا اور سال کے آخر میں 8ارب 30کروڑ ڈالر تک خسارہ متوقع ہے جو جی ڈی پی کے 2.7فیصد ہے ، بیرونی ممالک سے ترسیلات زر کے بارے بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے دس ماہ میں 15ارب60کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر ہوئیں ،سال کے آخر میں 19ارب 50کروڑ ڈالر کا تخمینہ ہے ، گزشتہ برس 19ارب 90کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر ہوئی تھیں ، رواں برس 2.9فیصد کمی ہے جسے کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں ، بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں ایک ارب 73کروڑ ڈالر کی ہوئیں جو سال کے آخر تک 2ارب 58کروڑ ڈالر ہوجائے گی ، گزشتہ برس ایک ارب 88کروڑ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہو ئی ، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے بارے میں انہوں نےکہا کہ 23مئی تک سٹیٹ بنک کے زرمبادلہ ذخائر 16ارب 15کروڑ ڈالر کے ہیں جبکہ شیڈولڈ بنکوں کے ذخائر 4ارب78کروڑ ڈالر کے ہیں جبکہ مجموعی ذخائر 20ارب 93کروڑ ڈالر کے ہیں ، وزیر خزانہ نے کہا کہ چین کا 2009میں لیاگیا قرضہ بھی واپس کردیا ہے جبکہ مشرف دور میں جاری کیے گئے 500ملین ڈالر کے بانڈز کی بھی ادائیگی کر دی گئی ، جون میں 750ملین ڈالر اور 300ملین ڈالر کے دو بانڈز کی بھی ادائیگیاں کی جائیں گی ، کرنسی کی قد ر میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور یہ 104.87روپے فی ڈالر کی سطح پر ہے ،فی کس آمدن جو جون 2013میں 1333ڈالر سالانہ تھی وہ اب 1629ڈالر ہوگئی ہے ، اس میں 2فیصد اضافہ ہوا، سرمایہ کاری میں جی ڈی پی کے مقابلے میں 15.78فیصد اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر 5026ارب روپے، فکسڈ سرمایہ کاری 417ارب روپے ، سرکاری شعبے کی سرمایہ کاری 1363ارب روپے اور نجی شعبے میں 3153ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ، سماجی شعبے کی ترقی کیلئے رقم میں اضافہ کیا اور اس کو تین برس میں بڑھا کر 116ارب روپے کر دی گئی ، 54لاکھ خاندانوں کو امداد دی جارہی ہے ، بےروزگاری کی شرح 6.2فیصد ہے ، غربت کی شرح میں کمی آئی ہے ،  10سال سے زیر التوا سٹاک مارکیٹ کو ضم کرنے کا معاملہ حل کیا اور جنوری 2016میں اس کو ضم کیا جس کے بعد پاکستان کی معیشت کو دنیا کی ابھرتی ہوئی مارکیٹ کا درجہ دیاگیا ، پاکستان سٹاک ایکسچینج 52ہزار انڈیکس ریٹ پر ہے ،مجموعی ملکی ریونیو5175ارب روپے رہا جو جی ڈی پی کا 16.3فیصد ہے ، اس میں ٹیکس ریونیو 4172ارب روپے اور نان ٹیکس ریونیو999روپے تک کی توقع ہے، اخراجات جی ڈی پی کا 21.5فیصد ہیںجو 6525ارب روپے ہیں ، اس کو 20.5فیصدتک لانے کی کوشش ہے ، مالیاتی خسارہ جو 2012-13میں 8.2فیصد تھا اس کو کم کر کے 4.2فیصد تک لایا گیا ہے ، ایف بی آر نظر ثانی شدہ ریونیوہدف 3521ارب روپے حاصل کر لے گا، ابتدائی ہدف 3621ارب روپے تھا 2012-13میں ریونیو ہدف 1946ارب روپے تھا  اور پانچ برس میں اس کو دگنا کر دیا گیا ہےاور آئندہ برس اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا، وزیر خزانہ نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے سے ریونیومیں 200ارب روپے کی کمی آئی ہے ، انہوں نے کہا کہ ملک کی جی ڈی پی میں اضافہ کے درست اعداد و شمار مرتب کرنے میں 2 بڑی مشکلات ہیں۔ پاکستان میں معیشت کے اعداد و شمار مرتب کرنے کا طریقہ کار 20 سال پرانا ہے جس کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سال کے دوران چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور قومی معیشت میں اضافہ ہوا ہے جو اس میں شامل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کو اس حوالے سے سٹڈی کا کہا گیا ہے جس میں 8 سے 12 ماہ لگیں گے۔  انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جی ڈی پی 20 فیصد تک کم ریکارڈ ہو رہی ہے۔ اس طرح کا کیس چین میں بھی تھا جب وہاں پر سٹڈی کروائی گئی تو چین کی معیشت میں 24 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران مجموعی قومی پیداوار میں 5.28 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس میں صنعتی شعبہ کا حصہ 20.88 فیصد، زراعت 19.53 اور خدمات کے شعبہ کا حصہ 59.59 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔مہنگائی اور افراط زر کے حوالے سے وزیر خزانہ نے اقتصادی جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مالی سال 2013-14ءکے دوران کنزیومر پرائس انڈیکس اور کور پرائس انڈیکس میں 8.69 فیصد کا اضافہ ہوا تھا جو مالی سال 2014-15ءکے دوران 4.81 فیصد تک کم ہوا۔ اسی طرح مالی سال 2015-16ءکے دوران مہنگائی کی شرح 2.79 فیصد تک کم ہو گئی،حکومت برآمدات میں اضافہ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے مالی سال میں جولائی تا اپریل کے دوران 20.54 ارب ڈالر کی برآمدات کی گئی تھیں جو رواں مالی سال کے اسی عرصہ کے 17.91 ارب ڈالر رہی ہیں اور مالی سال کے اختتام تک مجموعی قومی برآمدات کا حجم 21.76 ارب ڈالر رہنے کی توقع ہے،انہوں نے کہا کہ حکومت نے برآمدی شعبہ کی کارکردگی میں اضافہ کے لئے خصوصی پیکیج دیا تھا جس پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور بڑے برآمدی شعبہ کے مستقبل میں بھی مراعات کے عمل کو جاری رکھا جائے گا تاکہ برآمدی صنعت کی کارکردگی کو بڑھایا جا سکے۔ برآمدات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جولائی تا اپریل کے دوران 37.84 ارب ڈالر کی درآمدات کی جا چکی ہیں جبکہ مالی سال کے اختتام تک درآمدات کا حجم 45.48 ارب ڈالر رہنے کا امکان ہے۔ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے زیرو ریٹڈ پالیسی جاری رکھی جائے گی، انہوں نے کہا کہ ملک میں صنعتی اور تجارتی سرگر میو ں کے فروغ سے مشینری اور پلانٹ کی درآمدات میں رواں مالی سال کے دوران 40 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو جی ڈی پی پر مثبت اثرات مرتب کرے گی ،وزیر خزانہ نے کہا کہ جب ڈالر کی قیمت 111 روپے تک بڑھ گئی تو بعض لوگوں نے اس پر سخت تنقید کی اور کہا کہ حکومت کسی طرح بھی ڈالر کی قیمت کم نہیں کر سکتی لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی موثر مالیاتی پالیسیوں کے نتیجہ میں ڈالر کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی گئی،حکومت اپنے پانچ سالہ دور اقتدار کے دوران ٹیکس وصولیوں کی شرح میں دوگنے اضافہ کا ہدف حاصل کرلے گی، وزیر خزانہ نے کہا کہ مانیٹری پالیسی 2012-13میں شرح سود 9فیصد تھی جو کم ہو کر 5.75فیصد پر آگئی ہے اور یہ 45سال میں کم ترین ریٹ ہے ، گزشتہ مالی سال کے دوران ملک میں کی جانے والی مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 3348؍ ارب روپے تھا جو رواں سال 5026 ارب روپے تک بڑھ چکی ہے۔
تازہ ترین