• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ شاید انیس سو نوے کی بات ہے ان دنوں شام کے سات سے آٹھ بجے تک لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔جس پر لوگوں میں بڑی بے چینی پائی جاتی تھی ۔ایک محفل میں جب اس لوڈ شیڈنگ کے سبب حکومت ِ وقت پر کڑی تنقید ہوئی تواپنے وقت کے معروف ترین رائٹر اور دانشور نے حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہاکہ مجھے یہ لوڈ شیڈنگ بہت اچھی لگتی ہے ۔ جیسے ہی شام ہونے لگتی ہے میں اپنے دادا کے زمانے والا لیمپ پرانی الماری سے نکالتا ہوں۔ اس کی چمنی کو اچھی طرح صاف کرتا ہوں۔ جلنے والے سوت کی پوزیشن درست کرتا ہوں۔ اس میں مٹی کا تیل ڈالتا ہوں۔ باہر سے اچھی طرح چمکاتا ہوں جب برسوں کی دھول اترتی ہے تو وہ نیا نکور لگنے لگتا ہے۔ میں اُسے اپنے قریب میزپر سجادیتا ہوں ماچس کی ڈبیا بھی منگوا کر اس کے ساتھ رکھ دیتا ہوں اور بجلی جانے کا انتظار کرنے لگتا ہوں۔ جیسے ہی بجلی جاتی ہے ماچس کی جلتی ہوئی تیلی لیمپ کی وٹ سے وصال کرتی ہے اور کمرے میں لیمپ کی ہلکی ہلکی روشنی پھیل جاتی ہے مجھے بالکل ایسا لگتا ہے جیسے میں دم بھر میں اپنے بچپن میں پہنچ گیا ہوں ۔دادی اماں کے پاس بیٹھا ہوں اور وہ مجھے سات جگنوئوں والی کہانی سنارہی ہیں ۔ سات جگنوئوں والی کہانی مجھے بچپن میں بہت ہانٹ کیاکرتی تھی۔ اس میں سات جگنو جب مل کر روشن ہوتے تھے اوریک لخت زمین پر کوئی ستارہ چمکنے لگتا تھا تو میرا جی کرتا تھا کاش میں وہی ستارہ بن جائوں۔ ایک مرتبہ بابا نے سات لیمپ جلوا کر صحن میں ایک جگہ رکھوا دیئے تھے ایک بڑا لیمپ درمیان میں تھا اور چھ اس کے اردگرد تھے۔ مجھے وہ منظر بھی سات جگنوئوں جیسا لگا تھا۔ بہرحال لوڈشیڈنگ مجھے اچھی لگتی ہے کہ اُسی کی بدولت میں اپنے خوبصورت ماضی سے ہمکلام ہوتا ہوں۔ میری جگنوئوں سے گفتگو ہونے لگتی ہے ۔میرے اردگرد ستارے زمین پر اترنے لگتے ہیں۔اُس زمانے میں اگر دن کو لوڈ شیڈنگ ہوتی تو وہ کہیں جنگل میں دوپہر گزارنے کی کہانی بیان کرتے ۔درختوں کی چھائوں کے قصے سناتے ۔جھولتی شاخوں سے نرم ہوا کشید کرتے ۔
بہر حال میں نے بھی آج یہی سوچا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کو گلیمرائز کرنے کی کوشش کروں ۔یقیناً اس کا فائدہ اِس حکومت ہی کوہوگا مگر کیا کروں لوگ جس اذیت میں مبتلا ہیں وہ انہیں ذہنی مریض بناتی چلی جارہی ہے ۔سو ان کا دکھ بڑھانے کی بجائے کچھ کم کیا جائے ۔یہی جو واقعہ خیبر پختون خوا میں ہوا ہے ۔یہ چیخ چیخ کرلوگوں کی کیفیت بیان کررہا ہے ۔لوڈ شیڈنگ پریہ کیسا احتجاج تھا جس میںدو آدمی جان سے چلے گئے ہیں۔ بے شمار لوگ زخمی ہوگئے ہیں۔تھانہ جلا دیا گیا ہے۔ دفتر جلا دیئے گئے ہیں۔ حتی کہ لوگوں کو کنٹرول کرنے کیلئے فوج کو بلانا پڑا۔ گزشتہ رات کراچی کے ساتھ ساتھ پورا صوبہ سندھ اندھیرے میں ڈوبا رہا۔ کراچی میں بھی احتجاج جاری ہے۔ پنجاب کے چھوٹے شہروں میں بھی احتجاج شروع ہونے والاہے۔ دراصل گرمی بہت بڑھ گئی ہے۔ پنجاب میں تو میں لوگوں کو یہ مشورہ بھی نہیں دے سکتا۔ شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں کا رخ کرلیں وہاں کم از کم درخت ٹھنڈے سائے تو میسر آ جائیں گے۔ کیونکہ پنجاب میں جنگل رہے ہی نہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں تو گرمی کا ایک بڑاسبب پنجاب میں جنگلات کا خاتمہ بھی ہے ۔چھانگا مانگامیں پنجاب کاسب سے بڑا جنگل تھا ۔وہ چٹیل میدان میں تبدیل ہو چکا ہے ضلع میانوالی میں شیشم کے بہت بڑے جنگلات تھے خاص طور کندیاں اور ہرنولی کے علاقے میں ۔وہاں اب ایک درخت بھی نہیں موجود ۔صرف یہی نہیں تقریباً پورے پنجاب کے جنگلوں کے ساتھ یہی سلوک ہوا ہے۔ میں نے اپنے جنگلوں سے اِس سلوک کا سبب معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔ کئی وجوہات سامنے آئی ہیں دراصل گزشتہ کئی سالوں سے پنجاب کی متعدد فارسٹ ڈویژنوں میں اعلیٰ عہدوں پر جونیئرز افسروں کو تعینات کیا ہوا ہے اور سینئر افسران کھڈے لائن لگائے ہوئے ہیں۔ کئی جونیئر آفیسرز بڑے کمال کے لوگ ہیں۔ اپنے مجاز آفیسرز کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔ ان کی سرکاری فنڈ سے خوب خدمت کرتے ہیں ۔ جنگلات لگانے کیلئے جو فنڈ آتے ہیں۔ ان کی تقسیم بھی بڑی ایمان داری سےکرتے ہیں۔ یوں نئے جنگلات لگانے کی زیادہ تر رقم خوردبرد کردی جاتی رہی۔ جہاں تک جنگلات کے چٹیل میدانوں میں بدلنے کا معاملہ ہے تو اس کی وجہ محکمہ جنگلات کے نزدیک درختوں کی چوری کی وارداتیں ہیں مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ محکمے کے آفیسروں کے ملوث ہوئے بغیراتنے بڑے پیمانے پر چوری کیسے ممکن ہے۔ محکمے میں اس ساری آمدن کو پانچ سے سات حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ہر حصہ دار کو اس کے عہدے کے مطابق اس کا حصہ پہنچتا ہے۔ ان حصہ داروں میں چیف کنزرویٹر، کنزرویٹر، ڈی ایف او، ایس ڈی ایف یا رینج آفیسر ، بلاک آفیسر اور فارسٹ گارڈ اور کلرک بھی شامل ہوتے ہیں۔ مال کو پوری دیانت سے اوپر تک پہنچانے کے اس عمل کو سیونگ کہا جاتا ہے۔ برسوں سے یہ سیونگ سسٹم اس محکمے میں ایک ضابطے کی شکل میں رائج ہے۔لکڑی کی نیلامی بھی ٹمبر مافیا کی مرضی سے کی جاتی ہے ۔ جنگلات کی تباہی و بربادی کا یہ عالم ہے کہ ضلع میانوالی میں کندیاں پلانٹیشن کا 13ہزار ایکڑ ایک دوسرے قومی ادارے کو منتقل کیا جا رہا ہے ۔ زمین سے ماں جیسی محبت ہوتی ہے لیکن محکمہ کے افسران اور عملہ خوش ہے کہ رقبہ ٹرانسفر ہونے سے ان کا کچھ بھرم رہ جائے گا ۔ کیوں کہ جن رقبہ جات پر درخت آج سے بیس سال پہلے لگنے تھے وہ پانچ سال پہلے سے لگ رہے ہیں اور کئی بار لگ چکے ہیں ۔ لیکن بار بار لگنے کے باوجود جنگلات چٹیل میدان بنے ہوئے ہیں ۔اگرچہ خوراک اور زراعت کی عالمی تنظیم FAO کے مطابق 1990سے 2015 تک اوسطا2.1 فی صد سالانہ جنگلات کی کٹائی ہوئی ہے۔یعنی پچیس سال میں پچاس فیصد جنگلات کی کٹائی ہوئی مگر حقیقت میں یہ کٹائی 80فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔
عمران خان نے ایک سال پہلے پنجاب کے جنگلات کی تباہی کے خلاف آواز اٹھائی تھی اوراپنی پارٹی کے ایم پی ایز کو اس سلسلے میں اسمبلی سمیت دیگر تمام پلیٹ فارموں پر آواز بلند کرنے کی ہدایت بھی کی تھی مگر عمران خان کی نشاندہی کو شاید محض سیاسی مخالفت سمجھ کر نظرانداز کر دیا گیا۔ میری وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے گزارش ہے کہ وہ اس معاملہ کا سنجیدگی سے نوٹس لیں۔نہ صرف مجرموں کو اپنے انجام تک پہنچائیں بلکہ نئے جنگلات لگوانے پر بھی خصوصی توجہ دیں ۔یہ بھی لوڈ شیڈنگ کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں ایک اہم قدم ہوگا۔



.
تازہ ترین