• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہورہی ہے۔اداروں کا ایک دوسرے پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔گزشتہ ماہ متنازع ٹوئٹس اور پھر ان کی واپسی نے نئے باب رقم کئے ہیں۔پاناما کیس تمام فریقین کا سپریم کورٹ پر اعتماد کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔یہ اداروں کا باہمی اعتماد ہی ہے کہ ایک سینیٹر سرکاری افسران کے حوالے سے سخت زبان استعمال کرتا ہے اور مسلم لیگ ن کے صدر اس کی پارٹی اور سینیٹ رکنیت سے استعفی لے لیتے ہیں۔لیکن گزشتہ چند روز سے جو تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ادارے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوچکے ہیں۔یہ مناسب نہیں ہے۔لیڈر آف اپوزیشن خورشید شاہ کی گھن گرج سے بھرپور تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان تناؤ پیدا ہوچکا ہے اور صورتحال ٹکراؤ کی طرف جارہی ہے۔سینیٹر نہال ہاشمی کی تقریر کو وزیراعظم نوازشریف کی سوچ کی عکاسی قرار دیا گیا۔مگر اپوزیشن لیڈر شاید بھول گئے تھے کہ نہال ہاشمی نے تو کچھ سرکاری افسران کو ہدف تنقید بنایا ہے ،جس کی بھرپور مذمت کرنی چاہئے۔مگر وہ کیا تھا جب آپکے ایک سینیٹر اور کچھ وزرا ملک کے چیف جسٹس کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے تھے اور زرداری صاحب خاموش رہتے تھے۔سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کی تقاریر اور ٹی وی ٹاک شوز کی گفتگو اٹھا کر دیکھ لیں۔شرجیل میمن کو تو سپریم کورٹ نے باقاعدہ نوٹس جاری کرکے طلب کیا تھا۔جو زبان آپ کے ارکان اسمبلی ملک کی معزز عدلیہ کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔کیا وہ آصف زرداری کی ترجمانی ہوتی تھی۔عین ممکن ہے ایسا نہ ہو۔پارٹی لیڈر سے محبت کرنے والے جذبات میں بہت کچھ بول جاتے ہیں۔جس کی بہر حال مذمت ہونی چاہئے۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ یہ سب کچھ پارٹی صدر یا شریک چیئرمین کی مرضی سے کررہے ہیں۔باقی بات رہی احتساب کی تو اس سے بڑا مذاق کیا ہوگا کہ آج پورے ملک میں کرپشن کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔جے آئی ٹی شریف خاندان کے احتساب میں مگن ہے،سپریم کورٹ آف پاکستان عمران خان کے حوالے سے کیس سن رہی ہے۔مگر آصف علی زرداری صاحب کا کہیں ذکر تک نہیں ہورہا۔زرداری صاحب تنہائی میں بیٹھ کر ضرور ہنستے ہونگے کہ عمران اور نوازشریف کا احتساب ہورہا ہے ،میرا کوئی پوچھ تک نہیں رہا۔ بہرحال آج جو کچھ بھی ہورہا ہے ۔اس سب کے ذمہ دار نوازشریف خود ہیں۔اگر مفاہمت کے نام پر2013سے پہلے کی کرپشن فائلوںکو کھولا گیا ہوتا،اگر 65ہزار سے زائد ملازمین کو بغیر کسی قانون کے مستقل کرنے کی تحقیقات کی جاتیں،اگر حامد سعید کاظمی کے بعد حج کوٹہ میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے کیسز نیب کو بھجوائے گئے ہوتے،اگر ای او بی آئی میں گھپلے کرنے والوں کا کڑا احتساب کیا گیا ہوتاتو شاید اپوزیشن لیڈر کرپشن پر قوم کو بھاشن نہ دے رہے ہوتے۔
ساری صورتحال کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔میری رائے میںعمران خان سمیت تمام قومی رہنماؤں سے پوچھیں تو ان کا دل بھی اس بات کی گواہی دے گا کہ نوازشریف کرپٹ انسان نہیں ہیں۔بے ضابطگیوں کی بات کی جائے تو اس حکومت میں کرپشن کی شرح ماضی کی تمام حکومتوں سے کم ہے۔گزشتہ روز ایک شخص ملا اور کہنے لگا کہ نوازشریف کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ ان کے دور میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نہیں ہیں،میں نے مسکرا کر جواب دیا اداروں کو بھی شکر ادا کرنا چاہئےکہ ان کا سامنا پیپلزپارٹی یا آصف زرداری سے نہیں ہے۔اداروں کوکبھی بھی ایک دوسرے کے سامنے نہیں آنا چاہئے۔ہمسایہ ملک بھارت میں ہم سے زیادہ آزاد اور خودمختار عدلیہ ہے۔عدالتی فیصلوں کے موثر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر بھارت میں مندر تک گرائے گئے ہیں۔لیکن دنیا بھر میں یہ کہیں نہیں ہوتا کہ کوئی ادارہ چیف ایگزیکٹو یا حکومت کو دہشت گردوں کا ساتھی قرار دے۔انتظامی طور پر فوج،عدلیہ اور انتظامیہ چیف ایگزیکٹو کے ماتحت ہیں۔اگر چیف ایگزیکٹو مافیا ہوگا تو اس کے ماتحت ادارے کیا ہونگے؟ نہال ہا شمی نے جو لب و لہجہ استعمال کیا ،اس کا کسی بھی صورت دفاع نہیں کیا جاسکتا۔لیکن نہال ہاشمی کی تقریر کے جواب میں جو کچھ نوازشریف نے کیا اس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔قانون کی حکمرانی اور سویلین بالادستی کے لئے ضروری ہے کہ تمام ادارے ایک دوسرے کا احترام کریں اور اپنی متعین حدود سے تجاوز نہ کریں۔پاکستان میں آزاد عدلیہ حقیقت ناقابل تردید ہے۔مگر چیف ایگزیکٹو کی بالادستی بھی آئین پاکستان میں موجود ہے۔نوازشریف سے جتنا مرضی اختلاف کرلیا جائے لیکن بہرحال وہ ایک کروڑ اڑتیس لاکھ ووٹ لے کر آئے ہیں۔ہم سب کو مل کر کوشش کرنی چاہئے کہ اداروں میں پیدا ہونے والی خلیج کو کم کریں اور اپنی غلطی کا برملا اعتراف کریں۔ٹوئٹس معاملے کو جس طرح جنرل قمر باجوہ نےحل کیا ۔اس سے دنیا بھر میں ان کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر پاکستان میں منتخب جمہوری حکومت رسواہوگی تو پھر فائدہ کسی دوسرے ادارے کا بھی نہیں ہوگا۔مضبوط پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ عدلیہ،فوج اور مقننہ متحد ہوکر کام کریں۔اگر کوئی بھی ادارہ دوسرے ادارے پر تنقید کرے گا تو اس سے نقصان پاکستان کا ہوگا۔منتخب حکومت کا آخری سال ہے۔عام انتخابات کی تیاریاں رمضان المبارک کے بعد شروع کردی جائیں گی۔ملک کی معیشت میں ہونے والی بہتری پر پوری دنیا حیران ہے۔ایسے میں ہمیں کسی بھی ایڈونچر سے گریز کرنا چاہئے۔نوازشریف اس ملک کے سربراہ ہیں۔انہیں قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے تمام اداروں کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو کم کرنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔باقی بات رہی جمہوریت کو درپیش خطرات کی تو خورشید شاہ صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ملک میں جس جماعت کی بھی حکومت ہو جمہوریت ڈی ریل کرنے کی باتیں ماضی ہوچکی ہیں۔اگر مستقبل میں آپ کی حکومت ہوگی اور نوازشریف یا عمران خان ایسی بات کریں گے تو ان کے لئے بھی یہی پیغام ہے کہ منتخب جمہور ی حکومت اب کسی کی خواہش پر رخصت نہیں ہوا کرے گی۔عوامی مینڈیٹ کو عوامی طاقت سے ہی کچلا جاسکتا ہے اور عوامی طاقت کے مظاہرے کا بہترین موقع عام انتخابات ہوتے ہیں۔



.
تازہ ترین