• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں منتخب سیاسی حکومتوں کا عشرہ (2008-18) اختتام پذیر ہے ۔اس کے اختتام تک اب شروع ہونے والے انتخابی سال میں وقتاً فوقتاً تجزیہ ضروری ہے کہ 2018-28کے آنے والے (انشاء اللہ) جمہوری ہی عشرے کو ثمرآور بنانے میں مدد ملے۔ افسوس! جاری عشرے میں آئین کی مکمل بالادستی تو اک خواب ہی رہی، تاہم قانون کے یکساں نفاذ کے عظیم مطلوب قومی مقصد میں بڑی کامیابی ہوئی ۔وزیر اعظم گیلانی کی بذریعہ عدلیہ اقتدار سے علیحدگی ان کے بچوں پر مقدمات قائم ہونا، بڑی پگڑی والے وزیر صاحب کو حج اسکینڈل میں سزا، پھر سابق جرنیلی سرحد کے کچہریوں کے چکر اور اب رہا پاناما کیس کے تناظر میں حکمران شریف خاندان کی اولاد کی سپریم کوٹ میں تشکیل دی گئی تفتیشی ٹیم میں تفتیش نے جاری عشرے کے اس حصول کی نشاندہی کی ہے کہ اگر اپوزیشن فرینڈلی نہ ہو اور اپوزیشن کے طور سرگرم ہو، میڈیا بڑی قومی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے گورننس کو مطلوبہ حد تک رپورٹ کر رہا ہو اور سب سے بڑھ کر عدلیہ، انصاف کی فراہمی جیسے اپنے عظیم قومی فریضے پر چوکس بھی ہو اور سرگرم بھی تو بے پناہ بگڑی اسلامی جمہوریہ میں اسٹیٹس کو کی طاقت کے غلبے کے باوجود یہ ممکن ہے کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو کہ ملکی قانون کا اطلاق سب شہریوں پر یکساں ہو جو ملک کے سیاسی و اقتصادی استحکام کی ضمانت ہو گی ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیٹس کو کی قوتوں کے ثابت شدہ گٹھ جوڑ کے باوجود یہ برسوں سے ناممکن، ممکن کیسے ہوتا جا رہا ہے۔ فقط دو وجوہات، اللہ کی رسی کی درازی کا دورانیہ قریب الاختتام ہے اور عوام گھروں سے نکلتے تو نہیں بلاامتیاز احتساب پر اپنی خاموشی سے تائید ضرور کررہے ہیں ۔ کچھ عرصے سے نہیں ہو رہا کہ اسٹیٹس کو کی طاقتور اور عوام کی جانب بے رحم سیاسی قوتیں ایک چال چلتی اور ان کے مقابل اللہ اپنی ...اللہ تیری شان...پاناما لیکس کیا ہے ؟ سیاسی جماعتوں میں TORsبنانے میں ناکامی کے بعدپاناما اٹھانے والوں اور اس سے گھبرانے والوں، دونوں کا عدلیہ سے معاملہ نپٹانے پر اتفاق ہو جانے کے بعد پاکستان میں سپریم کورٹ کا ’’روایتی تاریخی ‘‘ نہیں بلکہ جاری مثالی اور حقیقی تاریخی کردار کیا ہے ؟اس پر سوچئے اور دیکھئے کہ اللہ کی چال کیسی ہوتی ہے ؟فیصلہ تو ہو گا سو ہو گا ، جزوی فیصلہ ہی ایسا آیا کہ برسوں یاد رکھا جائے گا کہ مدعی اور ملزم دونوں فریقین کے منہ گھی شکر سے بھر گئے ۔
مثالی جے آئی ٹی کا قیام کیسا ہے ؟پھر اس پر عوام کا اعتماد، میڈیا میں اس کی اہمیت اور احترام، یہ سب کچھ کیا ہے ؟دیکھئے اللہ کی چال کیسی ہوتی ہے ۔ کس نے کہا تھا کہ زد میں آئے جناب وزیر اعظم پاناما پر قومی نشریہ کریں اور اسمبلی میں وضاحتی خطاب، کیا تو گلے نہیں پڑا؟ پرائم منسٹر کہ میڈیا سیل کا وسائل اور سرگرمی کے حوالے سے جتنا شہرہ ہوا، اس نے حکومت کے خلاف اتنے ہی بڑے ڈیزاسٹر نہیں کئے اور اس کے بعد متعلقہ وزیروں کی مس ہینڈلنگ نے گورننس کا پردہ مکمل چاک نہیں کیا؟
ایسا نہیں ہوا کہ اسٹیٹس کو کے اندھیرے میں ملک میں قومی میڈیا کے ایجنڈے میں ’’احتساب‘‘ اور ’’تبدیلی ‘‘ نے جگہ بنائی اور خوب بنائی، اتنی کہ جگہ نہ دو تو میڈیا ہائوس خطرے میں۔ملک میں پہلی بار ’’اسپاٹ لائٹ جرنلزم‘‘ کا آغاز بڑے منظم انداز میں اور سرگرمی سے ہوا ۔لیکن اس روشنی میں بھی اسٹیٹس کو کی قوتیں، اندھیروں میں غرق ہی رہیں ۔حالانکہ جرنیلی صدر نے اسٹیٹس کو کی قوتوں کے ساتھ بھی شریک اقتدار رہنے کے لئے قومی خزانہ لوٹنے کے ملزم حکمرانوں، بڑے بڑے قرضہ خوروں، ٹیکس چوروں اور مافیاز کے جو 107خون معاف کئے ،اس کے بعد گنجائش تھی کہ عشرہ ’’جمہوریت‘‘ 98-1988والے کرتوں کو پھر حکومتوں میں آکر انتہا پر پہنچا دیا جائے پھر مہلت ملنے پر پہلی باری والے مہاکرپشن کرتے اور گورننس کو زمین سے لگا دیتے اور دوسری باری والے اسے فقط انتخابی مہم کا موثر مواد بنانے کے لئے استعمال کرتے اور خود اقتدار میں آکر زرداری ڈاکٹرائن’’مفاہمت کی سیاست ‘‘ کے سامنے سرخم تسلیم کر دیتے اور زرداری صاحب پرعزم کے ہم نے چار سال سیاست نہیں کرنی، اب دھماچوکڑی کا سارا زور اپنے زیر اقتدار صوبہ سندھ پر لگانا ہے۔ مفلوک سندھ کو مصنوعی قحط سے دوچار کرکے اور اڑھائی کروڑ کا شہر ملک کا اکنامک حب پانی کی بوند بوند کے لئے ترس جائے گا، وہاںغلاظت کے پہاڑ لگا دیئے جائیں گے اور شہر کے منتخب نمائندوں کو دیوار سے لگا دیا جائے گا ، لیکن جناب زرداری اور بی بی کے بعد پی پی کی اصل اور ہونہار قیادت نہیں جانتے کہ ان کا احتساب بھی جاری ہے یہ الیکشن 13سے شروع ہوا تھا، جب پی پی کی سیاسی طاقت کے حب پنجاب سے ووٹرز نے پی پی کو صوبے سے تقریباً بے دخل کر دیا یہ احتساب پنجاب میں جاری ہے ۔
اپنے کتنے ہی ڈیزاسٹرز کے بعد آج اسٹیٹس کو کو للکارنے والا اس کے خلاف کمال کا پیچھا باندھنے والا عمران خان ’’لوہے کو لوہے سے کاٹنے‘‘ کی قدیم ٹیکنالوجی پر عمل کرتا تحریک انصاف کو پی پی کے مایوس پنجابی جیالوں کی سیاسی پناہ گاہ بنا کر کوئی بڑا سیاسی فائدہ اٹھانے پر آمادہ ہو گیا ہے پاناما کو سپرد عدلیہ کرنے کی عظیم سیاسی کامیابی کے بعد یہ اس کا ڈیزاسٹر ہے یا سیاسی چال، ہے تو یہ لوٹا گیری پیداوار تو نظام بد کی ہے، لیکن پھر بھی کئی لحاظ سے بحث طلب ہے، اگر خان نے اس بحث کا اہتمام اپنی پارٹی کے اندر تازہ ذہن جنونیوں میں نہیں کرتا تو اس کا بھی اندرون جماعت اور میڈیا میں احتساب مطلوب ہے ۔
رہا معاملہ پک لیکس کے نئے تماشے کا، تصویر کس مقصد کے لئے لیک ہوئی اور اس سے کیا کیا مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں، یہ تو آئین نو میں کمیونیکیشن سائنس کے حوالےسے پہلے ہی واضح کر دیا گیا ہے کہ ایک ہی پیغام، پیغام وصول کرنے والوں ( جنہوں نے بھی تصویر دیکھی) کے ذہن میں مختلف تصویر بنائے گا۔حسین نواز کی عام ہونے والی تصویر سے دیکھنے والوں کے اذہان میں کوئی ایک تصویر نہیں کتنی ہی تصاویربنیں گی تفتیش میں تعاون کی، بڑوں کا احتساب شروع کی’’امتیازی سلوک‘‘ کی کہ عام شہریوں سے ایسے تشویش نہیں ہوتی ، حکومت کے بینی فشریز کے لئے اذیت ناک، قابل رحم، زیر احتساب، عبرت، انصاف اور جمہوریت کی۔ یہ بحث لغوی ہے کہ اس کا پیغام کیا ہے اصل ہنگامہ وہ سیاسی تماشا ہے جو قومی سطح پر محترم اور باعتماد جے آئی ٹی کی جائے تفتیش کے باہر لگایا جا رہا ہے جس میں ٹاپ ٹوڈائون احتساب کی عظیم قومی ضرورت پوری ہونے کے عمل کو ثبوتاژ کرنے کے لئے روزانہ ننگا ناچ ہو رہا ہے ۔شدت سے مطلوب احتساب کے عمل کو ثبوتاژ کرنے کی لاحاصل کوشش، جو کہ بالاخر نہ ہوسکے گا،حربوں سے رخنے ضرور ڈالے جا سکتے ہیں لیکن عدالتی او رتفتیشی عمل کو دھمکیوں اور انگلیاں اٹھا کر جھوٹے اوربے بنیاد الزامات دبائو ڈالنا فسطائیت کے زمرے میں آتا ہے اس کے نتائج ملک میں پہلے کیا نکلے ہیں یاد رکھا جائے کہ اب وہ نہیں نکلیں گے کہ پوری قوم انصاف چاہتی ہے جو ہوتا نظر آ رہا ہے دھول ڈال کر اسے دھندلانہیں کیا جا سکتا رہا اطلاعات، تصاویر اور فوٹیج کی لیکس کا نان ایشو۔ یہ میڈیا کا حق ہے اور فرض بھی ، کارکردگی کا امتحان بھی اوپر سے سوشل میڈیا بھی آ گیا جس میں گہری د لچسپی کے مواد کو میڈیا اور سوشل میڈیا سے بچا کر رکھنے کی کوشش کی تو جاسکتی ہے لیکن یہ بیشتر کیسز میں کامیاب نہ ہوگی وضاحت کو سمجھا جائے تماشے نہ کئے جائیں۔

تازہ ترین