• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعرات 15جون کو ملکی تاریخ میں قانون کی بالادستی اور احترام کی ایک نئی روایت قائم ہونے جارہی ہے جب ایک منتخب وزیراعظم ریاستی اداروں کے مختلف گریڈز کے ماتحت افسروں پر مشتمل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوں گے جو سپریم کورٹ کے حکم پر پاناما لیکس میں وزیراعظم نوازشریف کے خاندان کے کردار کے حوالے سے تفتیش کے لئے قائم کی گئی ہے، جے آئی ٹی کے سربراہ ،ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کی جانب سے وزیراعظم کو خط لکھا گیا ہے جس میں ان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں عدالت میں دائر کردہ آئینی درخواست کے سلسلے میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو پیش ہوں اوراپنے ہمراہ متعلقہ ریکارڈ بھی لائیں۔ کسی ماتحت ادارے کی جانب سے تحقیقات کے لئے وزیراعظم کو اس طرح طلب کرنے کی یہ ایک منفرد مثال ہے اس سے قبل پیپلزپارٹی کے دورکے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی مثال کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر انہیں کسی ماتحت ادارے یا افسر نے نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے طلب کیا تھا اور وہ پیش ہوئے تھے۔ جے آئی ٹی کا خط موصول ہونے پر اتوار کو رائے ونڈ میں ایک مشاورتی اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم کوان کی لیگل ٹیم اور قانونی ماہرین نے بریفنگ دی، قریبی ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے قانون اور عدلیہ کے احترام میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہو کر اپنا موقف ضرور پیش کریں گے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاناما لیکس کا معاملہ منظرعام پرآیا تو وزیراعظم نے خود سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا جس میں اس معاملے کی تحقیقات کے لئے کمیشن یا جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کی تھی۔ سیاسی حلقے وزیراعظم کی طلبی کو جمہوریت کے لئے خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہناہےکہ یہ اقدام اداروں کی مضبوطی کے لئے سود مند ثابت ہو گا۔ وزیراعظم کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ وزیراعظم کو جے آئی ٹی میں کوئی ریکارڈ پیش کرنے یا زیادہ جوابات دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ 1980میں سیاست میں آنے کے بعد خاندان کے کاروباری معاملات سے الگ ہونے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ 15اکتوبر 2015کو بطور وزیراعظم وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ٹیم کو اپنا بیان بھی جمع کرا چکے ہیں۔ وزیراعظم کی جے آئی ٹی میں طلبی کے ساتھ ہی یہ خبر بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ جے آئی ٹی کا دائرہ کار وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خاندان کے علاوہ شریف خاندان کے کئی دور کے رشتہ داروں تک بڑھا دیا گیا ہے۔ ٹیم نے ان کی تقریباً چار درجن کمپنیوں 4کا پتا لگایا اور ایس ای سی پی سے ان کے سالانہ اکائونٹس، مالی گوشواروں، اور بینی فیشل اونرز سمیت دیگر تفصیلات منگل تک طلب کر لی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس خاندان کے مرحومین کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے گی۔ اگر جے آئی ٹی نے ایسا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو نہایت مناسب ہو گا کہ وہ اپنی تحقیقات کا دائرہ ان تمام سیاست دانوں، سیاسی خاندانوں، بیورو کریٹس، ججوں، جرنیلوں، صحافیوں، غرضیکہ زندگی کے ہرطبقے سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد تک بڑھائے جن پر کسی نہ کسی حوالے سے مالی بدعنوانی، کرپشن ، اختیارات کے ناجائز استعمال اور قومی خزانے کی لوٹ مار کے الزامات ماضی یا حال میں لگائے جاتے رہے یا لگائے جارہے ہیں۔ مجرم ثابت ہونے پر انہیں اپنے جرم کی مناسبت سے قرار واقعی سزائیں بھی دی جائیں۔ اس طرح نہ صرف ملک کرپشن سے پاک ہوگا بلکہ الزام تراشی کی سیاست اور روایت کا بھی ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا جس نے عوام کے ذہنوں میں اچھے اور برے کے بارے میں الجھائو پیدا کر رکھا ہے۔ احتساب کا عمل شروع ہو ہی گیا ہے تو اسے محض پاناما لیکس یا ایک خاندان یا طبقہ تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ قوم کے تمام مجرموں کو اس کی لپیٹ میں لانا چاہئے اور یہ کام آئندہ انتخابات سے قبل مکمل ہونا چاہئے تاکہ کم سے کم سیاسی قیادت کے دعویدار کلین چٹ کے ساتھ انتخابی عمل میں شریک ہوں۔

تازہ ترین