• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں پاناما لیکس کی تحقیقات کے بارے میں قائم کی گئی جے آئی ٹی میڈیا پر چھائی ہوئی ہے۔ اخباری خبریں ہوں یا کالم، تجزیے ہوں یا اداریے ’’جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے‘‘ کا منظر پیش رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی عمل درآمد بینچ نے کہا تھا کہ ہمیں جے آئی ٹی کے لئے ہیرے کی طرح چمکتے دمکتے افراد چاہئیں۔ کم از کم دو اداروں سیکورٹی ایکسچینج کمیشن اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جن افراد کی سفارش کی وہ مطلوبہ چمک دمک سے محروم تھے لہٰذا عدالت کو وٹس ایپ کالز کی مدد سے دو ہیروں کا خود انتخاب کرنا پڑا۔ اب یہ دو ہیرے، دیگر چار ہیروں کے ساتھ جے آئی ٹی کے نولکھے ہار میں جڑے ہیں۔ چھ ہیروں کی یہ مالا ان دنوں میڈیا کا سب سے پسندیدہ موضوع ہے۔ اس کے ذکر کے بغیر کوئی ٹی وی ٹاک شو بھی نہیں جچتا۔
اب تو وزیراعظم نوازشریف بھی اس جے آئی ٹی کے سامنے پیشی بھگت آئے ہیں۔ وہ تقریباً تین گھنٹے تک ہیروں کے اس جھرمٹ میں بیٹھے ان کے سوالات کے جواب دیتے رہے۔ اس دوران کچھ سوال وزیراعظم نے بھی کئے جن میں سے ایک یہ تھا کہ کیا مجھ پر کسی کرپشن، سرکاری خزانے میں خورد برد، کسی کک بیک، کسی کمیشن یا کیسی ہیرا پھیری کا الزام ہے یا آپ لوگ صرف ہمارے خاندانی کاروبار کی 80سالہ تاریخ ہی کو کھنگالنا چاہتے ہیں؟ معلوم نہیں کہ ہیروں نے اس کا کیا جواب دیا لیکن وزیراعظم نے باہر آکر ایک بار پھر یہ سوال پوری قوم کے سامنے دہرایا ہے۔ ان کے مخالفین بغلیں جھانک رہے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔
تمہید ذرا لمبی ہوگئی۔ میں آج کا یہ کالم ہیروں کے اس نولکھے ہار عرف جے آئی ٹی کی شاندار کارکردگی کے تذکرے اور اسے خراج تحسین پیش کرنے کے لئے وقف رکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے انتہائی دکھ اور گہرا رنج ہے کچھ لوگ JIT کو بلاوجہ نشانہ بنا رہے اور یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ حسین نواز سے پچیس گھنٹے اور حسن نواز سے تقریباً دس گھنٹے کی تفتیش کے بعد اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ اسے پوری کوشش کے باوجود کوئی وعدہ معاف گواہ بھی نہیں ملا۔ سو وہ اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لئے خواہ مخواہ اداروں پرکیچڑ اچھال رہی ہے۔ ایک بڑے انگریزی اخبار (ڈان) نے اپنے اداریے میں یہاں تک لکھ دیا کہ JIT اپنے اصل ہدف سے ہٹ گئی ہے اور ٹامک ٹوئیاں مارنے لگی ہے۔ ایسے ہی انتہائی ناگوار اور افسوس ناک تبصرے اور بھی آرہے ہیں۔ یہ کھلی زیادتی ہے۔ میرے ذاتی خیال میں JITاپنے ’’ہدف‘‘ پر پوری طرح فوکس ہے جو یہ ہے کہ دستاویزات اور شہادتوں وغیرہ کے چکر میں پڑے بغیر وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کو مجرم ثابت کردیا جائے۔ وہ پوری توجہ اور دلجمعی کے ساتھ اس مقصد عظیم کے لئے کوشاں ہے جس پر اسے شاباش دی جانی چاہئے۔ JITیا ’’ہیروں کے اس نولکھے ہار‘‘ پر بلاجواز تنقید کرنے والوں اور یہ طعنہ دینے والوں کہ چالیس دنوں میں اس نے کچھ نہیں کیا، اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے۔ میرے خیال میں چالیس دنوں کے اندر JITنے وہ کچھ کر دکھایا ہے جو کوئی بڑی سے بڑی یونیورسٹی، کوئی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا بے پناہ وسائل رکھنے والا کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ بھی نہیں کرسکتا۔ معروف اخبارات ’’دی نیوز‘‘ اور ’’جنگ‘‘ میں میرے عزیز اور کہنہ مشق صحافی احمد نورانی کی ایک تفصیلی رپورٹ دیکھ کر JITکی شانداراور تاریخ ساز کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کاش ہیروں کے اس نولکھے ہار پر تنقید کرنے والے اس رپورٹ پر ہی ایک نظر ڈال لیتے۔
احمد نورانی کی رپورٹ دراصل JITکی اس رپورٹ پر مبنی ہے جس میں JITنے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی ہے کہ کس طرح آئی بی، ایس ای سی پی، ایف بی آر اور وزارت قانون جیسے ادارے اس کی راہ میں مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ ان الزامات کا جواب متعلقہ اداروں نے دے دیا ہے، سو اب عدالت جانے اور یہ ادارے۔ میں تو اس رپورٹ سے آشکارا ہونے والے صرف اس پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ چھ ہیروں پر مشتمل یہ JITکتنی محنت، ریاضت، جانفشانی اور پتہ ماری کررہی ہے۔ محض چند حقائق پر نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جائے گا کہ JITپر تنقید کرنے والوں کا رویہ کتنا متعصبانہ ہے۔ مثال کے طور پر تعصب کی عینک اتار کر ’’ہیروں‘‘ کی کارکردگی کا اندازہ ان نکات سے لگایئے۔
JITنے اپنی راہ میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں 120صفحات پر جو رپورٹ مرتب کی ہے، اس کے 110صفحات اخباری تراشوں، میڈیا شوز، سوشل میڈیا وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مانیٹرنگ کا کوئی بڑے سے بڑا ادارہ مثلاً پیمرا، وزارت اطلاعات یا آئی ایس پی آر بھی 20اپریل سے لے کر اب تک (یعنی تقریباً دو ماہ) کی ایسی جامع رپورٹ نہیں بنا سکتا جس میں روزانہ کی بنیاد پربیسیوں ٹاک شوز، اخبارات،سوشل میڈیا کی مکمل مانیٹرنگ شامل ہو۔ اسی طرح JITنے کمال ہنر مندی سے یہ بھی نظر رکھی ہوئی ہے کہ کوئی گواہ کہاں جارہا ہے اور کس سے مل رہا ہے۔ تمام متعلقہ افراد کی مکمل نقل و حرکت کا مشینی ریکارڈ بھی مرتب کیا جارہا ہے۔ داد دینی چاہئے کہ رپورٹ کے مطابق شہریوں کے فون بھی ٹیپ کئے جارہے ہیں۔ احمد نورانی کے الفاظ میں ’’ایسا لگتا ہے کہ JIT نے سینکڑوں گھنٹے ٹی وی ٹاک شوز، بحث و مباحثہ دیکھنے کے علاوہ سوشل میڈیا کو فالو کرنے پر صرف کئے ہیں۔ اس طرح کا انتہائی محنت طلب کام صرف ضروری آلات سے اچھی طرح لیس اوراچھے تربیت یافتہ میڈیا سیل کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں یہ کراماتی کام بظاہر JIT کے چھ افراد نے کیا ہے۔‘‘ شاباش!
’’ہیروں‘‘ کی شاندار کارکردگی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے صرف چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس شخص کو پکڑ لیا جس نے حسین نواز کی تصویر لیک کر کے مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مخالفین تک پہنچائی۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں لیکن JITمیں کیڑے نکالنے والے یہاں بھی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس شخص کا نام اور محکمہ بتایا جائے۔ اس کی شناخت واضح کی جائے اس کا چہرہ دکھایا جائے۔ میرے خیال میں JITسے بغض رکھنے والوں کے یہ سارے اعتراضات انتہائی فضول اور کج بحثی پر مبنی ہیں۔ جب سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے اس شخص کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھایا تو ہم کون ہوتے ہیں؟ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ احمد نورانی کے قول ’’کراماتی‘‘ کام دکھانے والا JIT کے قبضے میں کچھ جن بھی ہیں۔ اتنی بڑی میڈیا مانیٹرنگ رپورٹ کوئی جناتی مخلوق ہی مرتب کرسکتی ہے۔ اسی طرح تصویر لیک کرنے والا بھی یقیناً کوئی جن ہی ہوگا اور جنوں کے بھلا کوئی نام، چہرے یا شناختیں ہوا کرتی ہیں؟
JITکی طرف سے اسی رپورٹ میں ایک اور نہایت ہی معقول اور مبنی بر قانون و انصاف شکوہ یہ سامنے آیا ہے کہ موجودہ تفتیشی عمل کے ایک کردار اور وزیراعظم نوازشریف کے کزن، میاں طارق شفیع نے گواہی کے لئے آنے سے پہلے وزیراعظم ہائوس (جو وزیراعظم کی رہائش گاہ ہے) جا کروزیراعظم یا حسین وغیرہ سے مشورہ کیوں کیا؟ یہ معقول شکوہ ہے۔ سپریم کورٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ میاں طارق شفیع کو چاہئے تھا کہ وہ JIT آنے سے پہلے ’’بنی گالا‘‘ جاتے اور کپتان سے تفصیلی مشاورت کر کے گواہی کے لئے آتے۔ بلکہ مناسب ہوگا کہ تمام گواہوں کو اس امر کا پابند کردیا جائے کہ وہ JIT کا رخ کرنے سے پہلے خان صاحب سے مشورہ کیا کریں۔ وہ دستیاب نہ ہوں تو سراج الحق یا شیخ رشید احمد سے بریف لے کر آیا کریں۔ ایسا اس لئے ضروری ہے کہ ہیروں جیسا چمکتا دمکتا کردار رکھنے والے ارکان JIT کو گواہوں کو ڈرانے دھمکانے یا وعدہ معاف گواہ بنانے کے لئے دبائو ڈالنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ہیروں کے اس نولکھے ہار کے ایک ایک ہیرے نے اب تک کی شاندار کارکردگی کے ذریعے پوری طرح واضح کردیا ہے کہ وہ واقعی لاکھوں نہیں، کروڑوں میں ایک ہے۔ میں پوری طرح ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔ وہ یقینی طور پر ایک تاریخ لکھ رہے ہیں۔ خود تاریخ ان کے بارے میں کیا لکھے گی، یہ دیکھا جائے گا۔

 

.

تازہ ترین