• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب میں ماڈل قبرستانوں کی تعمیر
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کاہنہ میں جدید ترین سہولتوں سے آراستہ دیدہ زیب شہر خموشاں بنا دیا ہے، انہوں نے فرمایا اس طرح کے ایڈوانس پُر آسائش قبرستان صوبے کے دوسرے شہروں میں بھی تعمیر کئے جائیں گے، لائق صد تحسین ہے یہ اقدام، اس ملک کے عوام کے لئے بہترین جدید سہولتوں سے مزین قبرستان ہی اب بنائے جائیں تاکہ زندگی بھر کی تھکن شہر خموشاں میں اتر جائے، ہمارے ہاں آج تک کسی حکومت نے قبرستانوں پر توجہ نہیں دی، جبکہ دنیا بھر میں اب قبرستان ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر لش پش پارک کا گمان گزرتا ہے، خادم اعلیٰ پنجاب نے ایک طویل عرصے سے اپنے صوبے کی ہر شعبے میں خدمت کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے، ہمارے قبرستانوں کا حال اس قدر ہولناک ہوتا ہے کہ مرنے کو کسی کا جی ہی نہیں چاہتا، موت کا خوف مزید بڑھ گیا ہے، ایک زمانہ تھا قبرستان کوئی دن کے وقت جانے سے ڈرتا تھا، اب خیر سے وہاں بڑی رونق ہوتی ہے، چور ڈاکو لٹیرے، چرسی، بھنگی، افیونی اور جواء کھیلنے والے سب قبرستانوں ہی میں ہوتے ہیں، مردے دیکھ سکتے کچھ کر نہیں سکتے، اور ایک مردے نے تو بذریعہ خواب اطلاع دی کہ اس نے پولیس کو بھی دیکھا ہے، خدا کرے کہ کاہنہ میں جو ماڈل قبرستان تعمیر کیا گیا ہے، وہاں غیر متعلقہ افراد ڈیرے نہ جما لیں، حکومت پنجاب ان پر بھی نظر رکھے جو قبرستان کو کالے جادو کے لئے استعمال کرتے ہیں، گورکن جو ہر وقت قبرستان میں آن ڈیوٹی ہوتے ہیں ان کو بھی سرکاری چھتری تلے لایا جائے اور اجازت نامہ سسٹم رائج کیا جائے، ایماندار افراد ہی کو گورکن کا کارڈ جاری کیا جائے، کیونکہ ان کی اجازت کے بغیر قبرستانوں میں مردوں سے کھلواڑ نہیں ہو سکتا قبروں پر صاحب قبر کا رینک نہ لکھا جائے، اور نہ ہی کوئی غیر معیاری شعر، الغرض جدید دیدہ زیب قبرستانوں کے لئے ایک ضابطہ اخلاق بھی مرتب کیا جائے جو ہر قبرستان کے مرکزی دروازے پر نصب ہو۔
٭٭٭٭
اور بھی غم ہیں پاناما کے سوا
پاکستان سے اس کے ہمسائے چھینے جا رہے ہیں، امداد بند کرنے پر غور ہو رہا ہے، نیٹو کا لنگڑایا گیا اتحادی بھی نہیں رہنے دیا جا رہا، اوپر سے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں منافع خوری، مہنگائی کا جشن اوپر سے نیچے تک منایا جا رہا ہے، ایک ننھا روزہ دار غریب کا بال زہریلا سموسہ کھانے سے شہید ہو گیا، ہم شہیدان کشمیر تو نہ بن سکے اپنے ہی لوگوں کو اپنا پیٹ بڑھانے کے لئے شہید کرنے لگے، پاناما ایک مقدمہ ہے کرپشن کے خلاف، ملک کی سب سے بڑی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے ایک روز فیصلہ آ جائے گا لیکن یہ کیا کہ جیسے اس ملک کا اور کوئی مسئلہ ہی نہیں غربت جس کا حجم بڑھتا جا رہا ہے اور امیری جس کا شکم بھرتا نہیں، اس میں توازن نے پورے ملک کا دماغی توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے اس کی فکر کسی کو نہیں، جن کا پاناما سے دور نزدیک کا کوئی تعلق نہیں وہ اس پر مرچ مسالہ لگا کر زیر بحث لاتے وقت ضائع کرتے اور جگ میں تماشا بنتے ہیں چینلز چوراہا ہیں جس میں مزیدار کباب تیار کرتے اور بیچتے ہیں۔ خود بھی کھاتے ہیں قوم کو بھی کھلاتے ہیں، یہ پانامو فوبیا آخر کیوں؟ بڑے بڑے تاجر چاہے وہ اشیاء ضروری کے ہوں یا تعلیم فروشی، ضمیر فروشی، مذہب فروشی ان کے سامنے تو جسم فروشی بھی ماند پڑتی جا رہی ہے؎
تو نے عصمت بیچ ڈالی ایک فاقے کو ٹالنے کے لئے
لوگ یزداں کو بیچ ڈالتے ہیں اپنا مطلب نکالنے کیلئے
جب نظام کسی کو روزگار فراہم نہیں کر سکتا تو مجبور غریب لوگ جائز ناجائز کی تمیز کئے بغیر اپنے لئے کوئی بھی ایسا روزگار ایجاد کر لیتے ہیں، جس کا بظاہر جواز ہی نہیں ہوتا، گلیوں محلوں میں پھیری والے اب لائوڈ اسپیکر پر سب کچھ بیچتے ہیں، وقت تو اپنی جگہ کھڑا ہے۔ گزر نہیں رہا ہم گزر رہے ہیں، جسے دیکھو وہ وقت کو الزام دیتا ہے، حالانکہ حدیث قدسی ہے ’’وقت کو برا مت کہو وقت میں ہوں‘‘۔
٭٭٭٭
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی آزادی
آج تو قبرستانوں کا خوف کچھ اس قدر خوفناک انداز میں دل و دماغ اور قلم و قرطاس پر حاوی ہو گیا ہے کہ جینا مرنا ذہن سے نکلتا ہی نہیں، جب دماغ اس دشت کی سیاحی کرنے چل نکلا ہے تو کیوں نہ موت و حیات بارے کچھ کام کی باتیں یعنی موت کا خوف کم کرنے کی باتیں ہی قارئین کے استفادے کے لئے پیش کی جائیں، مرنا تو ہے ایک روز لیکن یہ جو رات بھر نیند نہیں آتی غالبؔ کی طرح اس کا بھی تو کچھ علاج چاہئے، عقلِ کل دانائے سبل ﷺ کا ایک فرمان ہے ’’لوگ سو رہے ہیں مرتے ہیں تو جاگ اٹھتے ہیں‘‘ لگ بھگ ایسی ہی بات شیلےؔ نے جان کیٹس کی جواں مرگی پر کہی تھی وہ جان کیٹس کے تابوت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :’’وہ (جان کیٹس) سو نہیں رہا بلکہ وہ خواب زندگی سے بیدار ہو گیا ہے‘‘ ایک آیت مبارکہ ہے :’’کل نفس ذائقہ الموت‘‘ (ہر نفس نے موت کو چکھنا ہے) لفظ چکھنا پر غور فرمائیں، چکھنے کا مطلب ہے موت کو صرف چکھنا ہے پورا نہیں کھا جانا، اس لئے یہ ثابت ہو گیا کہ مرنے کے بعد پھر جینا ہے، مگر وہ زندگی یہاں کی زندگی سے مختلف ہے، مقصد ہے دنیا بدل جائے گی ہم نہیں بدلیں گے، تو حضرات موت سے نہ ڈریں کہ یہ صرف چکھنے کی حد تک ہے اور چکھنے کو تو انسان زہر بھی چکھ لیتا ہے، ڈرنا چاہئے اپنے کرتوتوں کے حجم سے جن کے بارے میں پہلے ہی ایک حقیقی اور فائنل جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے۔ سوالنامہ بھی تیار ہے، ہم نے موت سے سہمے ہوئے دو انسانوں کو یہ کہتے سنا:’’اک چپ تے سو سکھ‘‘ والا فارمولا استعمال کریں گے جب منکر نکیر سوال کریں گے، ہم واضح کر دیں کہ قبرکی جے آئی ٹی کے پہلے سیشن میں جو کوئی جواب نہیں دے گا اس کی خاموشی کو نیم رضا سمجھ کر اس کے خلاف ابتدائی کارروائی شروع کر دی جائے گی، یہ جو یہاں مرنے کی پابندی ہے اسے اوکھے سوکھے اختیار کر لیں پھر آگے چل کر جینے کی کھلی چھٹی ہے، یعنی پھر مرنا ہی نہیں ایک شاعر نے کہا تھا؎
اے موت تجھے موت آئی ہوتی شاید اس کی دعا قبول ہو گئی ہے۔
٭٭٭٭
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
....Oبلاول زرداری:ہمیں پھانسیاں دی گئیں، قبروں کا ٹرائل ہوا، تمہارے ساتھ ایسا کیا ہوا۔
ہمیں ایک شعر یاد آ گیا؎
ہمیں تو تلخیٔ حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
....Oعمران خان2017:الیکشن کا سال، نواز شریف پاناما اسکینڈل سے کسی صورت نہیں بچ سکتے،
شکر کریں آپ وزیراعظم نہیں، اس لئے وزارت عظمیٰ کی تمنا بھی چھوڑ دیں،
....Oایرانی ڈرون، پاکستان نے مار گرایا۔
نوبت یہاں تک کس نے پہنچائی؟
....Oاسکولوں مدارس میں ایک نصاب۔
خدا کے لئے تعلیم کو تجربہ گاہ نہ بنائیں، گریجوایشن چار سال کی کر دی کس کو فائدہ پہنچانے کے لئے۔

 

.

تازہ ترین