• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نان کیڈر 42 اسسٹنٹ و اسٹینوگرافر تعلقہ ایجوکیشن آفیسر مقرر

کراچی (سید محمد عسکری/اسٹاف رپورٹر) سندھ میں اسکول ایجوکیشن محکمہ کو مذاق بنادیا گیاہےاورتجربہ کار پیشہ ور تربیت یافتہ تعلیمی افسران کی موجودگی میں دوسرے محکمے کے ملازمین کو غیر قانونی طور پر اسکول ایڈمنسٹریشن میں خالی اسامیوں پر پروموشن دے کر تعینات کیا جارہا ہے اس سلسلےمیں صوبائی حکومت نے 42اسسٹنٹ اور اسٹینوگرافر کو تعلقہ ایجوکیشن آفیسر مقرر کردیا ہے ان سب کو 75ہزار روپے خصوصی الائونس بھی ملے گا جبکہ جس وقت ان افسروں کی بھرتی ہوئی ہوگی اس وقت ان کی تعلیمی قابلیت میٹرک اور انٹر تھی۔ بنیادی طور پر تعلقہ ایجوکیشن آفسر کی اسامیاں ہیڈ ماسٹروں کے لئے ہوتی ہیںجو ماسٹرز کے ساتھ بی ایڈ اور ایم ایڈ ہوتے ہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ 42افراد  الیکشن آفسز میں کام کریں گے اور تنخواہ تعلقہ آفیسر کی لینے کے ساتھ خصوصی الائونس 75ہزار روپے ماہانہ لیں گے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول پنجوڈیرو ایٹ نئون ڈیرو ضلع لاڑکانہ کے ہیڈ ماسٹر منظور علی منگی نےاعلیٰ حکام کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح احکامات کے باوجود سندھ میں اسکول ایڈمنسٹریشن ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو مذاق بنایا گیاہے ۔ سیاسی وزیرمشیر اور بیوروکریٹس گزشتہ دس برس سے اپنی من مانی کرتے ہوئے پوری سندھ کی اسکول ایڈمنسٹریشن میں نان گزیٹڈ انچارجز بٹھا کر ایک طرف لوٹ کھسوٹ کا نظام رائج کر کے بجٹ ہضم کر رہے ہیں تو دوسری طرف اہل افسران کی اداروں میں تقرری نہ ہونے کی وجہ سے بد انتظامی عروج پر ہے جس کی وجہ سے تعلیم اور تعلیمی ادارے زوال پذیر ہیں ۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اسکول ایڈمنسٹریشن کے 17، 18، 19، 20گریڈ کے پروفیشنل ٹرینڈ تعلیمی افسران کی موجودگی میں دوسرے ڈپارٹمنٹس کے ملازمین عطائی افسران کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر اسکول ایڈمنسٹریشن میں خالی اسامیوں پر پروموشن دے کر تعینات کر کے 75 ہزار سےایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ 150000ماہانہ الائونس بھی دیا جا رہا ہے ۔ خط میں کہا گیا ہے کہ کیا کسی جج کی جگہ پہ کسی انجنیئر کو یا کسی ڈاکٹر کی جگہ پر وکیل کو یا کسی انجینئر کی جگہ پر کسی سیکشن آفیسر، اسسٹنٹ اور اسٹینو گرافر، مختارکار یا کسی اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کو تعینات کیا جا سکتا ہے ؟ ۔ تو پھر ایجوکیشن ڈپار ٹمنٹ میں پروفیشنل افسران کے اوپر ایکس کیڈر کے عطائی افسران کیسے مسلط کیے جا سکتے ہیں ۔ پاکستان میں اور سارے محکموں میں اگر ایسا ہو رہا ہے تو پھر ہمیں چیخنا اور چلانا نہیں چاہیے مگر دوسری جگہ ایسا ظلم نہیں تو پھر سندھ میں ایسا غیر آئینی اور غیرقانونی عمل کیسے ہو رہا ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ 

تازہ ترین