• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیرونی قرضوں کی بھرمار اور ملک میںجاری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر پہلے ہی دیگر ممالک کے زرِمبادلہ کے مقابلے میںبہت کم تھی۔ ایسے حالات میں بدھ کے روز ایکسچینج ریٹ میں تبدیلی کے بعد انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میںاچانک تین روپےپچاس پیسے کا اضافہ ہوا اورروپے کی قدر میں رواں دہائی کی سب سے بڑی کمی واقع ہوئی ۔اسٹیٹ بینک کے مطابق ایکسچینج ریٹ میں کمی بیرونی کھاتے میں اُبھرتے ہوئے عدم توازن کا تدارک اورملک میں ترقی کے امکانات کو مزید روشن اور مستحکم کرے گی۔نیز بر آمدات میں اضافہ اور بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔مگر دوسری طرف روپے کی قدر میں ہونیوالی کمی سے عام آدمی بالخصوص نچلے درجے کے تاجر حضرات کو جن کا پیسہ بینکوں میں پڑا ہے نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ روپے کی قدر میں کمی سے زر مبادلہ کے ذخائر اور ملکی جی ڈی پی میں بھی کمی ہوئی ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نےڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اچانک کمی پر حیرانی اور تشویش کا اظہار کیا اور سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ بعض افراد، عناصر اور بینک موجودہ سیاسی صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اِس حوالے سے ذمہ دار افراد اور اداروںکی نشاندہی کرنے کیلئے تحقیقات کرائی جائیں گی اور جلد ہی اسٹیٹ بینک کا مستقل گورنر تعینات کر دیا جائے گا۔صورتحال پر غور کیلئے بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ہنگامی اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے اُن کا یہ کہنا بھی درست تھا کہ روپے کی قدر میں کمی اداروں میں رابطوں کے فقدان کا نتیجہ ہے۔2018ء الیکشن کا سال ہے جس کیلئے ابھی سے مہم شروع ہو چکی ہے۔سیاسی جماعتوں کو انتخابی میدان مارنے کیلئے ایسےکسی بھی اقدام سے گریز کرنا چاہئے جس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچے۔روپے کی قدر اُسی صورت مستحکم ہو سکتی ہے جب ملک میں سیاسی استحکام ہو اور تمام بینک اور مالیاتی ادارے باہم رابطے میں رہیں ۔ حکومت کو ایسے اقدمات کرنا ہوں گے جس سے اسٹاک ایکسچینج اور روپے کی قدر مستحکم رہے۔

تازہ ترین